Menu

    خلافت کا اقتصادی نظام کیسا ہوگا؟

    1 مہینہ ago 0

    خلافت کا معاشی نظام کاناصڑف عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ وہ انہیں اس قابل بنائے گا کہ وہ دولت و وسائل میں سے اپنا حصہ وصول کر سکیں۔ سرمایادارانہ نظام اس میں کیوں ناکام ہے اور کیونکر خلافت اس میں کامیاب ہوگی اس کو مندرجہ ذیل باتوں کو سمجھ کر جانا جاسکتا۔

    رائج سرمایہ دارانہ نظام دولت کے ارتکاز اور غربت کی وجہ ہے جبکہ خلافت دولت کی گردش اور وسائل کی تقسیم کے ذریعے غربت کے خاتمے کا ذریعہ ہوتی:

                    غربت کا خاتمہ صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور ہر شخص کو زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کے مواقع منصفانہ طور پر مہیا کیے جائیں۔  پاکستان میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کی خامی یہ ہے کہ یہ نظام اصل مسئلے کی طرف توجہ دیے بغیر غربت کے مسئلے کو محض پیداوار میں اضافے کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔  جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمام لوگوں میں دولت کی موثر تقسیم اور گردش کیسے ممکن بنائی جائے۔ 

                    پس پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے اپنی توجہ پیداوار اور اوسط آمدنی میں اضافے پر مرکوز رکھی اور اس طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں کہ معاشرے میں دولت کی گردش کیسے ہو رہی ہے۔  وقت کے ساتھ ساتھ اگرچہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہوا مگر دولت چند ہاتھوں میں جمع ہوتی گئی۔  پاکستان میں طاقتوراپنی طاقت کے بل بوتے پر دولت حاصل کر لیتا ہے جبکہ کمزور کی کمزوری کی وجہ سے اس کے حصے میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔  اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ غربت کے خاتمے کی بجائے عوام کے گردغربت کا شکنجہ مزید سخت ہو رہا ہے ۔اسلام اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسلام نے دولت کی تقسیم کے مسئلے کو موضوع بنایا ہے اور اس کا مؤ ثر حل عطا کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:(كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ)”ایسا نہ ہو کہ دولت تمہارے امیر لوگوں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے” (الحشر:7)۔

                    اسلام نے ملکیت، توانائی، محصولات، سرمایہ کاری، کرنسی، زراعت اور صنعت کے متعلق منفرد قوانین دیے ہیں جو لوگوں کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ دوسروں کو محروم کیے بغیر اور ان کے حق پر ڈاکہ ڈالے بغیر دولت اور وسائل میں سے اپنا حصہ حاصل کر سکیں اوران قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں دولت معاشرے کے تمام لوگوں کے درمیان گردش کرتی رہے۔ جیسا کہ اسلام تیل گیس کوئلے جیسے توانائی کے بے پناہ اور قیمتی وسائل کو افرادی ملکیت کی بجائے معاشرے کی اجتماعی ملکیت قرار دیتا ہے ، غریبوں کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے ، کرنسی کو سونے اور چاندی سے منسلک کر کے افراطِ زر اور اشیائے ضرورت کی گرانی کا سدِ باب کر تا ہے،زرعی زمین کی کاشت کاری کو لازمی قرار دیتا ہے اور تین سال تک کاشت نہ کرنے پر زمین کی ملکیت کے حق کو سلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے درجنوں احکامات دولت کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے اور غریب کے استحصال سے روکتے ہیں۔

    موجودہ نظام میں عوامی اثاثہ جات مثلاً تیل ، گیس ، بجلی سے سرمایہ دار کمپنیاں فائدہ اٹھاتی ہیں، خلافت میں عوامی اثاثہ جات عوام ہی کے لیے ہوتے ہیں:

                    موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ چند نجی مالکان توانائی کے ذخائر سے اربوں روپے بنا سکیں اور دوسری طرف عوام تنگی اور محرومی سے دوچار رہیں۔  عوامی اثاثہ جات کی نج کاری کے باعث اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔  تیل ،گیس اوربجلی کے ذخائر کو پرائیویٹائز کرنے سے قبل حکومت ان کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تاکہ انہیں نجی کمپنیوں کے لیے پُر کشش بنایا جائے ۔  اس عمل کا تمام بوجھ بھی عوام پر پڑتا ہے۔  نیز پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے کے بعد نجی مالکان اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے ان سہولیات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں تمام اشیائے صرف کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں۔   چنانچہ ایک طرف تو چھوٹاساسرمایہ دار ٹولا توانائی کے ذخائر کی ملکیت کے ذریعے امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے جبکہ عوام توانائی کی ناقابلِ برداشت قیمتوں کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں۔   توانائی کی قیمتوں کے مسلسل اضافے نے پاکستان کی صنعت اورزراعت کوبری طرح متاثرکیا ہے۔

                     اسلام توانائی کے ذخائر جیسے وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے ۔   رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))”تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں:  پانی ، چراگاہیں اور آگ”(ابو داؤد)۔  چنانچہ نہ تو ریاست اور نہ ہی افراد اکیلے ان سے حاصل ہونے والے فوائد ہڑپ کرسکتے ہیں۔  اس کی بجائے اسلام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ پوری کی پوری عوام اس بے پناہ دولت سے مستفید ہو اور لوگوں کو یہ وسائل انتہائی سستی قیمت پر مہیا کیے جائیں۔

    خلافت ظلمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرتی ہے:

                    پاکستان کے عوام ظالمانہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہے ہیں ۔  انکم ٹیکس ان کی تنخواہیں کھا لیتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس کھانے پینے اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی خرید کو مشکل بنا دیتا ہے ۔  اس کے علاوہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ایندھن اور توانائی کے ذرائع پر بھاری ٹیکس عائد کر رہا ہے جس نے پاکستان کی صنعتی پیداوار اور بین الاقوامی منڈی میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔  ایک کسان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے زرعی سہولیات مہیا کرنے کی بجائے زرعی ادویات اور کھادوں پر ٹیکس عائدکر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں چھوٹے کسان کے لیے زراعت کو ذریعہ آمدن کے طور پر برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔  اسلامی ریاست میں ایسے ظالمانہ ٹیکسوں کی بالکل اجازت نہیں ہو تی ۔ اور نہ ہی خلافت میں کورٹ فیس، محصول چنگی، ٹول ٹیکس جیسے ٹیکس عائد کیے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ))”غیر شرعی ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا” (ابو داؤد)۔ 

                    اسلام کا ایک اپنا منفردمحصولاتی نظام ہے ۔  اس میں پیداواری زمین پر خراج، صنعتی پیداواراور اشیا کی برآمدات پر زکوٰة،اضافی عوامی اثاثہ جات سے حاصل ہو نے والی آمدنی ،ریاستی  حِمٰی سے حاصل ہونے والی آمدنی، غنائم و مالِ فئے وغیرہ شامل ہیں۔  اسلام صرف ایک صورت میں ریاست کے شہریوں سے وقتی طور پرٹیکس وصول کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ایسا کرنا کسی شرعی فرض کو پورا کرنے کے لیے نا گزیر ہو جائے مثلاً جہاد کے لیے یا کسی نا گہانی آفت سے نبٹنے کے لیے۔  ایسی صورت میں بھی جی ایس ٹی کی مانند ایک عمومی ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتابلکہ صرف صاحبِ ثروت لوگوں سے ٹیکس لیا جا سکتا ہے ۔  سرمایہ کاری کے رستے میں حائل بے جا رکاوٹوں کے دور ہونے اورریاست کی طرف سے عوام کومدد و تعاون کی فراہمی کے نتیجے میں خلافت کے اندر معیشتی سرگرمی اور صنعتی و زرعی پیداوارمیں بے پناہ اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں خلافت کے پاس محصولات کی ایک بھاری مقدار جمع ہو سکے گی۔ 

     بیرونی سرمایہ کاری استعماری مداخلت اور غیر مستحکم معیشت کا باعث بنتی ہے، خلافت مقامی سرمایہ کاری کو بڑے پیمانے پر فروغ دیتی ہے:

    اسلام کے محصولاتی نظام کے نتیجے میں خلافت کے بیت المال میں بڑے مقدار میں فنڈموجود ہوتے ہیں ۔  یہ فنڈ ریاست کی ترقی کے لیے کلیدی اور اہم شعبوں میں خرچ کیے جاسکتے مثلاً بھاری صنعتوں کے قیام اورپسماندہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے۔  یہ محصولات بڑے بڑے پراجیکٹوں مثلاً ڈیموں کی تعمیر ،وسیع پیمانے پر بنجر زمین کی کاشت، جہاد کے لیے اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مقامی سطح پر تیاری وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔  اور اس کے لیے بیرونی سرمایہ کاری اور قرضوں پر انحصار نہیں کیا جاتا۔  استعماری ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کے منصوبے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک کی طرف سے قرضوں کی فراہمی ہمیشہ ایسی شرائط کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کسی ملک کے وسائل پر استعماری طاقتوں کے کنٹرول اور معیشت میں ان کے عمل دخل اور اثر رسوخ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔  اور ایک ملک کی حقیقی اقتصادی صلاحیتیں کبھی بھی پروان نہیں چڑھ پاتیں۔  چنانچہ خلافت کی نظر میں بیرونی سرمایہ کاری معیشتی استحکام کے لیے آپشن نہیں ہے ۔

    خلافت جابرانہ قرضوں کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکے کا ذریعہ ہے:

                     دنیا بھر کی مقروض ترقی پزیر ممالک کی طرح پاکستان بھی قرضوں پر مسلسل سود ادا کرنے کے باوجود قرضوں کے جال سے نہیں نکل پایا۔  اس وقت تک پاکستان قرضوں پر سود کی مد میں کئی ارب ڈالر ادا کر چکا ہے، جو کہ قرضوں کی اصل رقم سے بھی زیادہ ہے،لیکن وہ قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبتا جا رہا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَأَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا) ”اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے”(البقرة: 275)۔  خلافت استعماری ممالک کے اس ظلم کو بے نقاب کرے گی کہ انہوں نے دیگر اقوام کو سودی قرضوں کے ذریعے غلام بنا رکھا ہے۔  اور ایک شدید مہم چلائے گی تاکہ بین الاقوامی سطح پر اس ظلم و استحصال کے خلاف رائے عامہ قائم کی جائے اور خلافت دیگر غریب ممالک کو بھی اس سودی جال کو اُتار پھینکنے کی ترغیب دے گی ۔ یہ سودی قرضے انہی استعماری طاقتوں کے ایجنٹ حکمرانوں نے اپنی من مرضی کے منصوبوں کے لیے حاصل کیے اور وہی انہیں ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں،ان قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری نہ تو عوام پر ہے اور نہ ہی  ریاستِ خلافت پر ہے۔

    خلافت قیمتوںمیں مسلسل اضافے کے مسئلے کا جڑ سے خاتمہ کرتی:

                    پاکستان میں ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں کے مسلسل بڑھنے کی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔  حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ کرنسی نوٹ چھاپتی ہے جس کے نتیجے میں افراطِ زر پیدا ہوتا ہے اور اشیا کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں۔  اس کا براہِ راست اثرایک عام تنخواہ دار اور دیہاڑی دار آدمی پر پڑتا ہے جن کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہوتا۔  مارکیٹوں میں مندی کا رجحان اسی کا نتیجہ ہے۔  جبکہ استعماری ادارے مثلاً آئی ایم ایف روپے کی قدر میں کمی پر مسلسل اصرار کرتے رہتے ہیں۔  کیونکہ کمزور روپیہ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفاد میں ہے ۔  کمزور روپے کے نتیجے میں ان کمپنیوں کو خام مال کم لاگت پر دستیاب ہو جاتا ہے اور یہ کمپنیاں پاکستان میں سستے داموں پر اشیاء تیار کرواتی ہیں اور انہیں مغربی منڈیوں میں مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔  

                    اسلامی ریاست میں کرنسی سونے اور چاندی سے منسلک ہوتی ہے پس خلیفہ ریاست کے پاس موجود سونے اور چاندی کے تناسب سے ہی کرنسی چھاپ سکتا ہے ۔  چنانچہ خلافت میں کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی واقع نہیں ہو گی،جو آج کی Fiat Currencyکے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔  اس کے نتیجے میں عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے گا۔ 

    پاکستان کا موجودہ نظام مغرب کی صنعتی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے صنعتی خودکفالت سے دانستاً غفلت برتتا ہے،جبکہ خلافت بھاری صنعت میں خودکفالت کی پالیسی اپناتی:

                    ریاستِ خلافت کے لیے دو قسم کی فیکٹریاں لگانانا گزیر ہے،کیونکہ ریاست پر لوگوں کے امور کی دیکھ بھال فرض ہے۔  اول: وہ فیکٹریاں جو عوامی اثاثہ جات سے متعلق ہیں مثلاً گیس اور تیل صاف کرنے والے پلانٹ ،تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ۔  چونکہ عوامی اثاثہ جات تمام عوام کی اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں اس لیے یہ پلانٹ بھی عوام کی مشترکہ ملکیت ہوں گے اور ریاست عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کا بندوبست کرے گی۔  دوم: وہ کارخانے جن کا تعلق بھاری صنعتوں اور اسلحہ سازی سے ہے،جوانجن سازی اور مشین سازی کی قابلیت رکھتے ہوں۔  ریاست اس نوعیت کے کارخانے قائم کرے گی ۔  صرف بھاری صنعتوں کی موجودگی سے ہی ایک فوج مضبوط اور طاقتور ہو سکتی ہے ۔ 

                    ریاست کا کوئی شہری بھی بھاری صنعتوں سے متعلق کارخانہ لگا سکتا ہے ، لیکن چونکہ ایسے کارخانوں کے قیام کے لیے کثیرسرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ریاست خود اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ریاست میں ایسے کارخانے بڑی تعداد میں موجود ہوں۔

                    مغرب نے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کی صنعت محض خام اشیاء کی فراہمی تک محدود رہے اورپاکستان قابلیت رکھنے کے باوجود صنعتی میدان میں ترقی نہ کر سکے اور بھاری مشینوں، انجن ، ہوائی جہازوں اور اہم سپیئر پارٹس کے لیے مغرب ہی کا محتاج رہے ۔  چنانچہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کی واحد اہم پیداوار خام کپڑے کی تیاری ہے جبکہ مغربی کمپنیاں مشنری اور آلات مہنگے داموں پاکستان کو فروخت کرکے منافع کما رہی ہیں۔  خلافت اس صورتِ حال کو یکسر تبدیل کرے گی اور بھاری صنعت میں خود کفالت حاصل کرنے کو اپنا اہم ہدف بنائے گی۔ 

    فوجی ٹیکنالوجی:

                      آج پاکستان کی فوج درآمد کردہ ٹیکنالوجی کی محتاج ہے۔  امریکہ اس طریقے سے اسلحہ فروخت کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کنٹرول میں رکھ سکے۔  امریکہ پاکستان جیسے ممالک کو چند تیار کردہ فوجی مصنوعات تو فراہم کرتا ہے مگر کبھی بھی اپنی کمپنیوں کواس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ فوجی ٹیکنالوجی پاکستان کو منتقل کریں۔  نتیجتاً پاکستان امریکہ کا فوجی یرغمال بن کر رہ گیا ہے حتیٰ کہ وہ اہم سپیئر پارٹس بھی امریکہ سے درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ 

                    پس خلافت کے خود مختار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عسکری میدان میں بھی دیگر ریاستوں کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو اور خود اپنا اسلحہ تیار کرے اور اس میں بہتری لائے۔  چنانچہ اس کے نتیجے میں خلافت نہ صرف مضبوط ہو سکے گی بلکہ مستقل بنیادوں پر جدید ترین اور اعلیٰ ترین اسلحے کی حامل بھی بن سکے گی۔  خلافت کے پاس وہ تمام ہتھیار موجود ہوں گے جودشمنوں پر رعب ڈالنے کے لیے ضروری ہیں، خواہ یہ کھلم کھلادشمن ہوں یا ایسی اقوام جو ممکنہ طور پر دشمن ثابت ہو سکتی ہیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ)”اورتم اپنی مقدور بھر قوت اور گھوڑوں کو ان کے لیے تیاررکھو، تا کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو اور اس کے سوا اُن کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے”(الانفال:60)۔

    پاکستان کی موجودہ زرعی پالیسی زرعی پیداوار کے اضافے میں رکاوٹ ہے،خلافت زراعت سےمتعلق اسلامی قوانین کےنفاذکےذریعےزرعی پیداوارکووسعت دےگی:

                    اگرچہ پاکستان بہترین زرعی وسائل کا حامل ہے لیکن زراعت کے متعلق نظام کی غفلت نے یہ صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ پاکستان جو دیگر ممالک کو کھلانے کے قابل ہے آج مختلف بنیادی اجناس بھی درآمد کر تاہے،جیسے کھانے کا تیل ۔ 

                    پاکستان میں زرعی اراضی کا ایک بہت بڑا رقبہ حکومت کی عدم توجہ کے باعث بیکار اوربنجر پڑاہے جبکہ ایسے غریب کسان موجود ہیں جو زمین کو کاشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں۔  اسلام زرعی اراضی کے متعلق یہ حکم دیتا ہے کہ بنجر زمین کو آباد کرنے والا اس زمین کا مالک بن جاتا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَعْمَرَ أَرْضًا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ فَهُوَ أَحَقُّ)) ”جس نے بھی ایک ایسی زمین کاشت کی جو کسی کی ملکیت نہیں تھی تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے”(بخاری)۔  چنانچہ خلافت اس شرعی قانون کو نافذ کرے گی اور غریب لوگوں کو مدد فراہم کرے گی کہ وہ بنجر اراضی کو قابلِ کاشت بنائیں اور زرعی پیداوار میں اضافہ کریں۔ 

                    علاوہ ازیں خلافت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ وہ لوگ جن کے پاس قابلِ کاشت اراضی کا کثیر رقبہ موجود ہے اور وہ اس تمام رقبے پر کاشت نہیں کرتے،اس تمام اراضی کو ضرور استعمال میں لایا جائے۔  کیونکہ اسلام نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اگر کوئی زمیندار مسلسل تین سال تک زرعی اراضی کو کاشت نہ کرے تو وہ اس سے واپس لے کر مستحقین میں تقسیم کر دی جائے۔  یہ امر بھی زرعی پیداوار میں اضافے کا باعث بنے گا۔

                    خلافت لوگوں کو بڑے بڑے قطعات کی ملکیت رکھنے اور انہیں زیرکاشت لانے سے منع نہیں کرے گی ۔  چنانچہ کوئی بھی  زمیندارخود یا اپنے تنخواہ دارمزدوروں کی مدد سے اپنی زرعی زمین کاشت کر سکتا ہے۔  تاہم زمین کو ٹھیکے پر دینے کی اجازت نہیں ہو گی۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:((من کانت لہ ارض فلیزرعھا او فلیزرعھا اخاہ ولا یکارھا بثلث او بربع ولا بطعام مسمی))”جس کسی کے پاس بھی زمین ہو اسے چاہئے کہ وہ اس پر کاشت کرے یا اپنے مسلمان بھائی کو کاشت کرنے دے ۔  لیکن وہ اسے پیداوار کے تیسرے حصے یا چوتھے حصے یا متعین مقدار کے عوض ٹھیکے پر نہ دے”(ابو داؤد) ۔  یوں مزارعت کے نام سے جاری غریب کسانوں کے استحصال کو ختم کیا جائے گا۔ 

                    خلافت اپنے کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی فراہم کرے گی جس کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار کو بڑھایا جاسکے ۔  نیز کھادوں،کیڑے مار دواؤں پر عائد غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ 

    یہ ہیں ان احکامات کی مختصر سا تعارف جن کے ذریعے خلافت میں اس خطے کے لوگ اپنے انہی  موجودہ وسائل کے ذریعے مسائل سے دوچار ہونے کے بجائے ایک مضبوط معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔

    Leave a Reply

    Leave a Reply

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے