Menu

    Miracle of Quran is in its Arrangement

    قرآن کریم کا معجزہ، انسانوں اور جنوں کو چیلنج کرنا، صرف اس کی ترتیب کے پہلو میں مضمر ہے

    جسیم عباسی 6 گھنٹے ago 0

    بسم الله الرحمن الرحيم

    http://www.al-waie.org/archives/article/4889

    ترجمہ الوائی شمارہ  173, ستمبر 2001

    لفظ عجز کے معنی ہیں استطاعت  اور قوت  کا  موجود نہ ہونا اور (عجَزَ عن الأمر) کے معنی معاملے کو   مکمل کرنے  کی  طا قت کا نہ  ہونا ہیں۔لفظ معجزہ ایک ایسی  علامت ہے جس کی بنیاد پر کسی کو چیلنج کیا جاتا ہے اور جس کو چیلنج جاتا ہے وہ اس کی طرح  کی کوئی چیز لانے سے قاصرہوتا  ہے۔ معجزے کا لفظ نبوت کی ہر  علامت کو ظاہر کرتا ہے،چاہے  وہ مؤنث ہو، جیسے عصا ، یا مذکر ہو، جیسے قرآن کریم۔  معجزہ کی بنیاد میں  ہی  اس  کے  معنی  موجود  ہیں   کیونکہ  جس  کو چیلنج کیا گیا ہے وہ  اس  کے مقابلے میں  اس  کی طرح  کی چیز لانے سے قاصر ہے کیونکہ  وہ  اس  کی  استطاعت  سے  باہر  ہے۔ جسے چیلنج کیا جاتا ہے  جب وہ اس جیسی کوئی بھی چیز نہیں لا سکتا تو یہ اس کی ناکامی ہے۔ اگر کسی  ایک  یا ایک سے   زیادہ  کو چیلنج کیا جائے  اور  وہ اس  معجزے کی طرح  کا کچھ لے آئے تو   معجزہ  باطل ہو جاتا ہے اور اس معجزے کی چیلنج  کوبرقرار رکھنے کی صلاحیت باطل ہو جاتی ہے۔  ایک معجزہ ایک سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہو سکتا ہے، جبکہ اس کا معجزہ ہونے کا پہلو ان خصوصیات میں سے ایک ہے۔  اسی طرح موسیؑ کا عصا ایک سانپ میں تبدیل ہو گیا جو رینگتا اور ڈراتا تھا جبکہ جادوگروں کی چھڑیوں نے لوگوں کو نظربندی سے دھوکہ دیا جیسے وہ سانپ ہیں جو انہیں ڈرانے کے لیے حرکت کر رہے ہیں۔  اس سے موسیؑ  کو  حیرت  ہوی  اور  انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنا عصا پھینک دیں ۔ اچانک ان کے  عصا کی امتیازی خصوصیات سامنے آ گئیں۔معجزے کا پہلو یہ تھا کہ موسیؑ کا عصا  لوگوں کے وہم پر مبنی اشیاء کو کھا جاتا تھا۔لہٰذا جادوگر سجدے میں گر پڑے۔  اس طرح قرآن کریم بھی عربی زبان میں عربی حروف کے ساتھ نازل ہوا۔  اس کے باوجود کہ قرآن نے  عربوں  کو انہی کی زبان کی ترتیب کے پہلو سے چیلنج کیا  لیکن  وہ اس کی طرح کی کوئی بھی چیز لانے سے قاصر  رہے۔  اس طرح یہ اس پہلو سے رسول  محمدﷺ کا معجزہ ہے۔ معجزے کا یہ  بنیادی  پہلو کسی اور الفاظ میں موجود نہیں۔ کسی بھی معاملے کا معجزہ ایسا ہوتا ہے کہ اسے کسی اور چیز میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔  

    حال ہی میں قرآن کریم میں معجزے کے دیگر پہلوؤں کے وجود کے بارے میں تحریریں سامنے آئی ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ قرآن نے اس طرح کے پہلوؤں سے کوئی چیلنج نہیں دیا۔ اور نہ ہی قرآن اس طرح کے پہلوؤں میں دوسروں سے منفرد تھا، کیونکہ اس طرح کے پہلو سنت میں بھی موجود ہیں۔

    ان کا دعویٰ ہے کہ جدید دور میں معلوم ہونے والے سائنسی حقائق کے بارے میں قرآن کا ذکر یا اشارے قرآن کے معجزے کے پہلو میں شامل ہیں۔

    الله کا یہ کہنا ،

    ﴿وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ﴾" ہم نے لوہا نازل کیا ہے"(الحدید:25)۔

    اور اس کا  ارشاد ،

    ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا﴾ " اس کے بعد اس نے زمین کو پھیلا دیا"(النازعات:30)۔

    اور اس کا  ارشاد،

      ﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾ "اس سے اس کا جوڑا  بنایا"(النساء:1)۔

    اور اس  کا  ارشاد  ،

    ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾"اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیزیں بنائی"(الانبیاء:30)۔

    اور اس کا فرمان،

    ﴿بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ﴾"ان کے درمیان ایک آڑ ہے اور ان میں سے کوئی حد سے تجاوز نہیں کرتا"(الرحمٰن:20)۔

    اور اس کا  فرمان،

    ﴿وَٱلْجِبَالَ أَوْتَادًا﴾"اور کیا پہاڑوں کو میخیں نہیں ٹھہرایا؟"(النبا:7)۔

    اور اس نے کہا،

    ﴿ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِىْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ‏. ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ‌ ؕ فَتَبٰـرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ  الْخٰلِقِيْ﴾"(المومنون:13-14)
    
    پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جگہ میں نطفہ کے طور پر رکھ دیا پھر ہم نے نطفے کے قطرہ کو چپکتے  ہوئے لوتھڑے میں بنایا اور پھر لوتھڑے  کی " بوٹی  بنائی اور بوٹی کی ہڈیاں بنائی  پھر  ہڈیوں  پر گوشت چڑھایا  ۔ پھر ہم نے اسے ایک اور مخلوق میں پیدا کیا پس الله بڑی برکت والا ہے جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے"(المومنون:13-14)۔

    یہ اور اسی طرح کی دیگر آیات میں ایسے معاملات کا ذکر ہے جنہیں وہ سائنسی معجزات کہتے ہیں،ان کا ذکر کرنے میں قرآن ممتاز نہیں ہے  کیونکہ یہ پہلو سنت میں بھی  موجود ہے۔

    بخاری و مسلم نے ابوہریرہ ؓ سےروایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

    ما بيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أرْبَعُونَ ”  صور کی دو آوازوں کے درمیان چالیس ہوں گے”۔
    قالوا: يا أبا هُرَيْرَةَ أرْبَعُونَ يَوْمًا؟ قالَ: أبَيْتُ، قالوا: أرْبَعُونَ شَهْرًا؟ قالَ: أبَيْتُ، قالوا: أرْبَعُونَ سَنَةً؟ قالَ: أبَيْتُ، ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ ماءً فَيَنْبُتُونَ، كما يَنْبُتُ البَقْلُ. قالَ: وليسَ مِنَ الإنْسانِ شيءٌ إلَّا يَبْلَى، إلَّا عَظْمًا واحِدًا، وهو عَجْبُ الذَّنَبِ، ومِنْهُ يُرَكَّبُ الخَلْقُ يَومَ القِيامَةِ
     "کسی نے ابوہریرہؓ سے پوچھا کہ چالیس دن؟ لیکن انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ پھر پوچھا چالیس مہینے؟ انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ پھر پوچھا چالیس سال؟ پھر انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ ابوہریرہؓ نے مزید کہا:پھر (اس مدت کے بعد) اللہ آسمان سے پانی بھیجے گا پھر لاشیں  ایسے اگیں گی جیسے سبزہ اگتا ہے، انسانی جسم میں سے کوئی ایسی چیز نہیں جو گلتی سڑتی نہ ہو سوائے ایک ہڈی کے،وہ دم کی ہڈی ہے جس سے قیامت کے دن انسانی جسم دوبارہ پیدا کیا جائے گا"۔

    ان کا کہنا ہے کہ پیدائش  کا بنیادی  خلیہ دم کی ہڈی میں موجود ہوتا ہے اور یہ خلیہ اپنی  قسم میں منفرد ہے، یہ ایسی خصوصیات کا مالک ہے  کہ اس سے جسم کے ہر قسم کے تمام خلیات بنائے جا سکتے ہیں۔سائنس یہ  انکشاف کرتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ  خلیہ تمام جینیاتی خصوصیات پر مشتمل ہے۔اس سے اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ سنت اور قرآن میں یہ پہلو مشترک ہے جسے وہ معجزے کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو قرار دیتے ہیں۔ اگر انہوں نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے تو پھر سنت بھی ویسے ہی معجزہ ہو گی جیسے قرآن ہے لیکن حقیقت میں قرآن ہی  چیلنج کرنے والا معجزہ ہےاور سنت نہیں۔

    معجزہ کا دوسرا پہلو جس کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ قرآن کی قانون سازی ہے۔ اس کا جواب رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے دینا کافی ہے، قد أوتيت القرآن ومثله معه "مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی طرح کی(ایک اور) چیز دی گئی”۔جو شخص فقہ کی کتابوں کو دیکھےگا اسے بھی  حدیث کی سچائی ملے گی۔ پھر معجزہ کہاں ہے؟ اور کافر یہ کہہ کر بحث کرتا ہے  کہ چور کا ہاتھ کاٹنے میں معجزہ کہاں ہے؟ چار بیویوں سے شادی کرنے میں معجزہ کہاں ہے ؟اور مرد کو دو عورتوں کا حصہ دینے میں معجزہ کہاں ہے؟لہٰذا کافر عقلی دلیل کا مطالبہ کرتا ہے۔تو معجزے کے لحاظ سے قرآن کو سنت کے برابر کیسے کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ کافر ان آزادیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جو مغربی قانون سازی میں موجود ہیں، یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مغربی قانون سازی قرآن سے بہتر ہے ۔ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جزیہ کی ادائیگی،زانی کو کوڑے مارنے اور خنزیر کے گوشت کی ممانعت میں معجزہ کہاں ہے؟  اگر ہم کافر کویہ کہہ کر دلیل پر قائل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ قرآن پر ایمان لائے، کہ اس میں معجزانہ قانون سازی  ہے اور انسان اس طرح کے قوانین  نہیں لا سکتا تو معاملات الجھ کر پیچیدہ ہو جائیں گے، دلیل ختم ہو جائے گی۔ جب تک کافر قرآن پر ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی  کی طرف سے ہے تو وہ قرآن کی  قانون سازی کو معجزہ کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا۔

    ایک اور پہلو جس کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ غیب کے بارے میں قرآن کی معلومات ہیں جیسے اللہ نے فرمایا،

     الٓمّٓ ۚ‏. غُلِبَتِ الرُّوْمُۙ‏. فِىْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَۙ. ‏فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ،
    "الف لام میم۔ رومیوں کو شکست ہوئی ہے۔ قریب کی سرزمین میں اور اپنی شکست کے بعد وہ تین سے نو سال کے اندر فتح یاب ہوں گے"(الروم:4-1

    تاہم سنت میں بھی ویسے  ہی غیب کے بارے میں خبریں موجود ہیں، جیسے مستقبل کے بارے میں قرآن میں موجود ہیں، جیسے نبی ﷺ کا قول ہے،

    وليوشكن أن يكون للرجل مثل شطن فرسه من الأرض حيث يرى من بيت المقدس خير له من الدنيا جميعاً
    "بے شک عنقریب ایک وقت آئے گا کہ ایک شخص  کے لیے اپنے گھوڑے کی رسی کے برابر زمین کا ہونا، جس سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہے، اس کے لیے پوری دنیا سے بہتر ہو گا!"۔

    اور نبی ﷺکا قول ،

     مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَلَكِنْ سَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا كَانَتِ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ اللَّهُ  ،
    "جس سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔لیکن میں تمہیں اس کے ا ثار کے بارے میں بتاؤں گا۔ جب غلام عورت اپنی مالکن کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کے ا ثار میں سے ایک ہے۔ جب ننگے پاؤں اور ننگے  لوگ  تمہارے سردار بن جا ئیں تو یہ اس کے ا ثار میں سے ایک ہے۔ جب چرواہے عمارتیں تعمیر کرنے میں مقابلہ کرنے لگیں تو یہ اس کے ا ثار میں سے ایک ہے۔ (قیامت) پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا"۔

    اور نبیﷺ کا یہ کہنا،  يأتي على الناس زمان يتباهون بالمساجد ،"ایک وقت آئے گا جب لوگ مساجد کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے”۔اور نبیﷺکا یہ کہنا، لَتُفتَحَنَّ القُسْطَنْطينيَّةُ ،”تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے”۔اور نبیﷺکا یہ کہنا،  لا تَقومُ السَّاعةُ حتى يَبنيَ النَّاسُ بُيوتًا يُشبِّهونَها بالمَراحِلِ ،"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ ایسے گھر نہ بنا دیں جو رنگین (عریاں) لباس کی طرح ہوں”۔اور نبیﷺکا ام حرام کو یہ کہنا ، أنت من الأولين ،”تم پہلے لوگوں میں سے ہو”،پھر وہ سمندر پر روانہ ہوئی اور پھر وہ اپنے سواری کے جانور سے گر کر مر گئی۔اور  نبیﷺنے کہا، تقتل عمارًا الفئة الباغية ،”حد سے بڑھنے والا گروہ عمار کو قتل کر دے گا”۔اور نبی ﷺکا یہ کہنا، يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ ،”قومیں جلد ہی آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو طلب کریں گی”، اوراسی طرح کی  دیگر احادیث۔اگر غیب کے بارے میں معلومات معجزے کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہوتا  تو سنت ایک معجزہ ہوتی۔

    ان کا کہنا ہے کہ قرآن کے معجزے کے پہلوؤں میں سے پچھلے وقتوں کی کہانیوں کے بارے میں اس کی معلومات ہیں۔ یہ معاملہ صرف قرآن تک محدود نہیں ہے۔ سنت نے بھی پچھلے وقتوں کے قصے بیان کیے ہیں جیسے غار کے ان لوگوں  کا  قصہ جن پر غار کا دروازہ بند ہو گیا تھا، راہب اور نوجوان لڑکے کا قصہ اور دیگر لوگوں کے  قصے۔  تاہم یہ پہلو اس تمام کے ساتھ مشترک ہے جو ماضی کی کہانیوں کے بارے میں کئی زبانوں میں لکھا گیا ہے۔ کافر قرآنی قصوں کی سچائی اور دوسری کتابوں کے قصوں سے اس کے امتیاز  پر یقین نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ یہ نہ مانتا ہو کہ قرآن اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے۔ جب تک ایسا ہے، قرآن بطور  معجزہ اس پہلو سے  نہیں  پرکھا  جاسکتا۔

    یقینی طور پر یہ تمام  پہلو  قرآن کے معجزہ ہونے کے لئے دلیل نہیں ہیں کیونکہ یہ سنت میں  اور سنت کے علاوہ  میں بھی موجود ہیں۔ چھان بین کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہنے والے قرآن کے معجزے اور اس حقیقت میں الجھے ہوئے ہیں کہ نبیﷺ کو وحی ملی تھی اور وہ اپنی خواہش سے کچھ بیان نہیں  کرتے۔ قرآن ایک معجزہ ہے اور سنت کوئی معجزہ نہیں ہے جبکہ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں۔ یہ فرق ان کے درمیان  واضح  ہونا چاہئے۔

    قرآن کریم کے معجزے کا واحد پہلو جو انسانوں اور جنوں کو چیلنج کرتا ہے وہ  اس کا نظم اور اسلوب ہے یعنی معانی کی ساخت, تشرحی  ترتیب اور زبان   کے اظہار کی شکل ۔  زبان میں اظہار مختلف الفاظ اورمختلف تراکیب پر مبنی  ہے جس میں اس طرح کے الفاظ اور تراکیب معانی کی شکل میں ہیں جو ان سے کبھی بھی الگ نہیں ہوتے جب تک کہ وہ الفاظ مهمل(بغیر معنی کے لفظ) نہ ہوں جبکہ قرآن میں کوئی مهمل الفاظ نہیں ہیں۔  جب قرآن کے بعض معانی کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو وہ معجزہ نہیں رہتے۔ اسی لحاظ سے معجزہ ان الفاظ کی ترتیب اور نظم  میں ہے جو معنی کی عکاسی کرتے ہیں۔

    یہی معجزے کا واحد پہلو ہے۔ معجزے کو سمجھنے کیلئے عربی اور اس کے آداب  ( گرامر ) کا علم ضروری ہے۔  یہ اس دلیل کو قائم کرنے سے بالکل مختلف ہے کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔ یعنی یہ دلیل کسی بھی زبان میں قائم کی جا سکتی ہے کہ قرآن اللہ سبحانہ وتعالی  کی طرف سے ہے نہ کہ محمدﷺکی طرف سے،یا عربوں یا غیر عربوں کی طرف سے۔  معجزے کا چیلنج آج بھی موجود ہے اور رہے  گا ۔  کوئی بھی اس جیسا یعنی اس کی طرزوترتیب اور  بنیادی  ساخت  کی طرح کی چیز پیدا نہیں کرسکے گا۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کی نا قابلیت کی تصدیق کو  واضع  کیا  جائے،  نہ  کہ  معجزہ کے پہلو کی وضاحت کرنے کی دلیل قائم کی جائے۔پہلی بات یعنی معجزہ ہونے پر دلیل قائم کرنا کسی بھی زبان میں ہو سکتا ہے، جبکہ معجزہ کے پہلو کو بیان کرنا ، صرف عربی زبان میں ہو سکتا ہے۔

    جو شخص بھی  کافروں اور منافقوں کے ساتھ مباحثہ میں مشغول ہو اسے چاہیے کہ وہ ان دو باتوں میں فرق کرے ،اول یہ کہ قرآن ایک معجزہ ہے اور دوئم یہ کہ نبی ﷺ کی طرف  وحی کا  نزول ہونا اور  ا ن کا اپنی خواہشات کے  مطابق بیان نہ کرنے کی فطرت ۔  اسےقرآن کے معجزہ ہونے کی  دلیل قائم کرنے اور اس کے معجزے کے پہلو کی وضاحت کرنے میں بھی فرق کرنا چاہیے۔  جو شخص قرآن میں سائنسی حقائق کے وجود کو قائم کرنے پر اصرار کرے تو وہ انہیں محمد ﷺ پر وحی  کے  نزول  پر  قائل  اور قائم کرنے کے لیے استعمال کرے نہ کہ قرآن کا معجزہ  ہونے پر قائل کرنے کیلئے استعمال کرے۔

    Leave a Reply

    Leave a Reply

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے