بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(عربی سے ترجمہ)
الواعی میگزین شمارہ نمبر 461 -460
جمادی الاول – جمادی الثانی 1446 ہجری،
بمطابق دسمبر – جنوری 2025 عیسوی
تحریر : بلال العجیلی
تاریخی طور پرامریکہ ایک یورپی کالونی تھا، یہاں تک کہ 1775 عیسوی میں برطانوی استعمار کے خلاف انقلابی تحریک برپا ہوئی ، جس کی قیادت جارج واشنگٹن نے کی۔ 1776 عیسوی میں فلاڈیلفیا میں کانفرنس کے دوران نوآبادیات (کالونیوں) کی آزادی کا اعلان کیا گیا اور ریاست ہائے متحدہ کے جھنڈے تلے ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد یہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ ایک بڑی طاقت بن گیا۔
امریکہ نے مغربی نصف کرہ(Western hemisphere ) میں تحفظ پسندی (protectionism )کی پالیسی اپنائی، جس کا اعلان منرو نظریہ (Monroe Doctrine) کے ذریعے کیا گیا جو 2 دسمبر، 1823 عیسوی کو امریکی صدر جیمز منرو نے امریکی کانگریس کو دیے گئے ایک پیغام میں پیش کیا۔ منرو نظریہ میں مغربی نصف کرہ (Western hemisphere ) میں موجود تمام ممالک کی آزادی کی ضمانت دینے پر زور دیا گیا تاکہ ان پر یورپی مداخلت کے ذریعے ظلم نہ کیا جا سکے یا ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مداخلت نہ ہو۔ اس نظریے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ یورپ میں بسنے والے امریکیوں کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی یورپی طاقت کی کالونیوں کے باسی کی طرح برتاؤ نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح، امریکی خارجہ پالیسی مغربی نصف کرہ (Western hemisphere) کو دنیا کے دیگر ممالک سے محفوظ رکھنے پر مبنی تھی ۔ اس پالیسی کی کامیابی کا انحصار، یورپی ممالک کے درمیان طاقت کے توازن (balance of power) سے مشروط تھا ۔ اس وجہ سے امریکہ نے اپنی بیرونی کاروائیاں مغربی نصف کرہ تک محدود رکھیں، ما سوائے فلپائن پر قبضہ کرنے کے، کہ جس کی وجہ جاپان کا خطرہ تھا ۔ امریکہ جاپان سے خوفزدہ تھا اور اسی لیے اس نے خود کو صرف فلپائن تک ہی محدود رکھا۔ جبکہ دوسری طرف یعنی مغربی نصف کرہ میں امریکہ نے اپنا اثرورسوخ ، براعظم جنوبی امریکہ اور وہاں موجود جزائر تک بڑھا دیا۔
امریکہ نے یورپ ، کہ جہاں چار بڑی طاقتیں جرمنی، فرانس، انگلینڈ اور روس موجود تھیں، ان کے لیے ایک خاص پالیسی ترتیب دی ۔ ان ممالک کےآپسی تنازعات شدت اختیار کر چکے تھے، امریکہ ان تنازعات کو ہوا دے رہا تھا اور یورپی ممالک کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ تاکہ کوئی ایک ملک پورے یورپ پر حاوی نہ ہو سکے۔ اس نے انگلینڈ کو چنا اور یورپ میں طاقت کے توازن کی پالیسی میں اس کی حمایت کی۔ امریکہ ہر اس یورپی ملک کی پشت پناہی کر تا رہا جسے کوئی دوسرا ملک نگلنے کی کوشش کر تا تھا۔ اِس خطہ میں اول درجہ پر جرمنی اور اس کے بعد روس امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تھے۔کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک ،پورے یورپ پر مکمل کنٹرول حاصل کر نے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ اس لیے امریکہ 1917 عیسوی میں جرمنی کے خلاف پہلی جنگ عظیم کے اوائل میں جنگ میں داخل ہوا لیکن بعد میں الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر کاربند ہو گیا۔اور دوسری جنگ عظیم تک اسی پالیسی پر کاربند رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی یورپی ممالک کی کمر ٹوٹ چکی تھی، جبکہ مشرقی یورپ پر روس کا قبضہ ہو چکا تھا۔ سوویت یونین ایک فوجی طاقت اور کمیونسٹ نظریے کی حامل ریاست کے طور پر ابھرا ، جو یورپ میں طاقت کے توازن کے لیے خطرہ بن گیا۔ دوسری جانب، چین بھی کمیونسٹ ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ یہ دونوں عوامل امریکہ کو 1947 میں عالمی اسٹیج پر آنے اور دنیا کی سیاست اور انتظام میں حصہ لینے پر مجبور کرنے کا باعث بنے۔ اس کے نتیجے میں امریکی پالیسی کا انداز بدل گیا۔ اس نے فوجی اتحاد قائم کرنے شروع کیے جیسا کہ ’وارسا ‘معاہدے کے مقابلے میں امریکہ نے نیٹو (NATO) کا اتحاد قائم کیا ۔ اسی طرح اُس نے دو طرفہ، سہ طرفہ اور چہار طرفہ فوجی اتحاد قائم کیے تاکہ اپنے مفادات کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس نے مالی اور اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے گروپ آف سیون(G-7) تشکیل دیا اور امریکی ڈالر کو عالمی ریزرو کرنسی بنا دیا۔ ان تمام اقدامات نے امریکہ کو دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے اور اپنی حیثیت اور اثر رسوخ کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔
امریکہ میں تقسیم اور نیوکنزرویٹو تحریک کا ظہور:

دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ ایسی سپر پاور کی حیثیت اختیار کر گیا جس کا کوئی مدمقابل نہ تھا اور عالمی سیاست میں اس کی یہ پوزیشن آج بھی قائم ہے۔ 2001ء میں جارج ڈبلیو بش کے صدر بننے کے بعد ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان پہلی واضح تقسیم دیکھنے کو ملی۔ نیوکنزرویٹو تحریک کے رہنما، جن میں پال ولفووِٹز (Paul Wolfowitz )، ڈک چینی (جو نائب صدربنے) اور رمزفیلڈ (وزیر دفاع ) اقتدار میں آئے ۔ انہوں نے 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کو اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا، جسے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا نام دیا گیا۔ امریکہ نے استعمار کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا ، اور خود استعمار بن کر بیٹھ گیا،اوراسی نعرے کے تحت افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا اور شام کو مداخلت کی دھمکیاں دیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئرنے نیوکزرویٹو دور میں امریکی ویژن کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ“۔ بش جونیئر نے ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کی اپنائی ہوئی بین الاقوامی شراکت کی پالیسی (policy of participation) کو ترک کر کے یکطرفہ فیصلہ سازی (unilateralism) کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی نے یورپی ممالک اور روس کو امریکہ کے خلاف متحد ہونے پر مجبور کیا۔ یہ بات 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے دوران واضح طور پر سامنے آئی کہ جب فرانس، جرمنی اور روس نے امریکہ کا مقابلہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے امریکہ کو عراق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اگر مصر، شام اور خلیج کے غدار حکمرانوں نے امریکہ کو اس مصیبت سے نہ بچایا ہوتا تو وہ تقریباً شکست خوردہ ہو کر نکلنے کے قریب تھا۔ عراق میں شدید مزاحمت کے نتیجے میں نیوکنزرویٹو پالیسی ناکام ہو گئی،جس کے نتیجہ میں انہیں صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 2008ء میں ڈیموکریٹ صدر اوباما اقتدار میں آئے۔ اوباما نے شراکت کی پالیسی کو بحال کیا اور دنیا میں امریکی پالیسی کے اس مکروہ چہرے پر دوبارہ نقاب ڈالنے کی کوشش کی، جو نیوکنزرویٹو حکمرانی کے دوران بگرام جیل (افغانستان) اور ابوغریب جیل (عراق) میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے سب پر آشکار ہو چکا تھا۔
ٹرمپ کا اقتدار میں آنا اور تقسیم کا مزید گہرا ہونا :
یہ پالیسی زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی، کیونکہ 2016 میں ریپبلکنز دوبارہ اقتدار میں آئے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے امریکی قیادت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ ٹرمپ نے ’’سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی کا اعلان کیا، جو امریکی مفادات کو اولین ترجیح دینے، غیر ملکی امداد میں کمی کرنے اور بین الاقوامی سلامتی میں دیگر ممالک سے زیادہ شراکت کی توقع پر مبنی تھی، تاکہ امریکہ دوبارہ اپنی خودپسندی کی طرف لوٹ جائے۔ امریکی پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی تب دیکھنے کو ملی جس میں کثیر الجہتی معاملات کے بجائے دو طرفہ تعلقات کو اپنایا گیا۔ اس کا مقصد ایسے معاہدے کرنا تھا جو براہ راست امریکہ کے مفاد میں ہوں۔ امریکہ نے کئی بین الاقوامی معاہدوں سے دست برداری اختیار کی۔ درحقیقت، ٹرمپ انتظامیہ نے آٹھ مندرجہ ذیل بین الاقوامی معاہدوں سے خود کو الگ کر لیا:
- 1- ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ(TPP) (جنوری 2017)۔ اس موقف پر کہ یہ معاہدہ امریکی ورکروں کے لئے نقصان دہ تھا۔
- 2- پیرس معاہدہ (جون 2017 )۔ جب ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے اپنے انخلاء کا اعلان کیا اور اس کی وجہ امریکی معیشت پر اس کے منفی اثرات کو قرار دیا۔
- 3- یونیسکو (اکتوبر 2017 ) ۔ جب ٹرمپ نے اس پر یہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ یہودی وجود کے خلاف تعصب کا شکار ہے۔
- 4- جامع مشترکہ حکمتِ عملی (JCPOA) (مئی 2018 )۔ جسے ایران کے جوہری معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔
- 5- اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل (جون 2018 )۔ اس دعوے کے ساتھ کہ یہودی وجودکے خلاف منافقت اور تعصب کا شکار ہے۔
- 6- روس کے ساتھ انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز معاہدہ (اگست 2019 )۔ روس پر عدم تعمیل کا الزام عائد کرتے ہوئے۔
- 7- اوپن سکائز معاہدہ (مئی 2020)۔ روس پر خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے۔
- 8- عالمی ادارہ صحت (جولائی 2020 )۔ کووڈ-19 وبا کے حوالے سے اس کی کاروائیوں اور چین کے بارے میں اس کی مبینہ تحقیق پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ اس معاہدہ سے دستبردار ہوا۔

اگرچہ امریکی حکومت پر ہمیشہ سے نادیدہ ریاستی ادارے (deep state institutions) ،جیسا کہ پینٹاگون، وزارت خارجہ، بڑی کمپنیوں کے لابی گروپس، اثرورسوخ رکھنے والے سرمایہ دار اور دیگر، کا غلبہ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی معاشرے میں تقسیم شدید تر ہو گئی ہے۔ یہ تقسیم ابتداء میں اداروں کی سطح پر نظر آئی اور بتدریج گلی کوچوں تک پہنچ گئی۔ اور یہ تقسیم 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کی جوبائیڈن کے ہاتھوں شکست کے موقع پر اپنی انتہا پر پہنچی۔
بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کی پالیسی کے برعکس پالیسی اپنائی۔ امریکہ پیرس معاہدے میں واپس آیا، عالمی ادارہ صحت سے تعاون بحال کر دیا گیا اور نیٹو اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اپنے معاہدوں کی دوبارہ توثیق کی گئی۔ بائیڈن نے اپنے پیشرو کے مقابلے میں کم سخت پالیسی اختیار کی اور اپنے راستے میں نرمی دکھائی۔ تاہم بائیڈن نے دنیا بھر میں کئی جنگوں کو بھڑکایا، جیسا کہ روس-یوکرین جنگ، سوڈان کی جنگ اور کچھ ممالک میں فوجی بغاوتیں کروائیں۔ تاہم، یہ سب فیصلوں اور معاہدوں میں اختلاف رائےکے حوالے سے ہے، نہ کہ اندرونی تقسیم۔
دونوں فریقوں اور ان کے حامیوں کے درمیان پہلا براہ راست تصادم 2021 میں امریکی کانگریس پر حملے کے دوران ہوا جب ٹرمپ کو انتخابات میں شکست ہوئی ، ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے واشنگٹن ڈی-سی آنے اور کانگریس اور نائب صدر مائیک پینس کو چیلنج کرنے کی اپیل کی۔ تاکہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو نظرانداز کر کے صدارت کو ٹرمپ کے ہاتھ میں رہنے دیں۔ اس کے بعد ایف بی آئی (FBI) نے سابق صدر ٹرمپ کے گھر پر چھاپہ مارا، کئی دستاویزات کو ضبط کیا اور ٹرمپ کو 2024ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش میں ان پر مقدمہ چلایا۔ اس سب نے ٹرمپ کے حامیوں کو غصے میں مبتلا کر دیا اور انہوں نے نیویارک شہر کے جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ نے امریکہ کو ایک تاریک انجام کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا ملک جہنم کی طرف جا رہا ہے اور بہت تیزی سے جا رہا ہے“۔ یہ تنازع اس وقت مزید بڑھ گیا جب ریاست ٹیکساس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور 25 ریپبلکن ریاستوں نے ٹیکساس کے گورنر کی حمایت کی۔
امریکی مصنف مالک شرقاوی نے رشیا ٹوڈے انٹرنیشنل (RT) کو عربی زبان میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’امریکہ میں خانہ جنگی محض ایک چنگاری کے فاصلے پر ہے، یہ صرف ٹیکساس کی علیحدگی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اگر ٹرمپ کو 2024ء کے انتخابات میں داخل ہونے سے روکا گیا یا ان کا قتل کر دیا گیا، تو خانہ جنگی یقینی ہے۔ ایک ملین ہتھیار تیار ہیں، کیونکہ جنوبی اور جنوب مغربی ریاستوں کے شہری خانہ جنگی کے امکان کے پیش نظر ہتھیار اور گولہ بارود جمع کر رہے ہیں“۔فوکس نیوز کے مطابق، نیویارک شہر کے جج، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’ہش منی“ کیس کی نگرانی کر رہے ہیں، کو موت کی دھمکیاں موصول ہوئیں، جس کے بعد ان کی حفاظت کے لیے ایک سکیورٹی ٹیم تعینات کی گئی۔
صدارتی انتخابات اور تنازعات میں گرمی :
جیسے جیسے2024ء کے صدارتی انتخابات قریب آئے دونوں جماعتوں اور ان کے حامیوں کے درمیان الزامات اور بیانات کے ساتھ تنازعہ شدت اختیار کر گیا جس نے تقسیم کو مزید گہرا اور مستحکم کر دیا۔ الشرق الاوسط کے 18 ستمبر 2024 کے ایک مضمون کے مطابق: ’’ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً نصف ریپبلکنز نے کہا کہ اگر ان کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ڈیموکریٹک حریف کملا ہیرس سے ہار گئے تو وہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے، جبکہ کچھ نے تصدیق کی کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھیں گے اور انتخابات یا نتائج کو بدلنے کے لیے اقدامات کریں گے“ یہ بات امریکی اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے ‘میں شائع ہوئی۔

اس کے برعکس ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق جس میں 100 سے زائد ممالک میں قانون کی حکمرانی کا جائزہ لیا گیا، نے بیان کیا کہ تقریباً ایک چوتھائی ڈیموکریٹس نے کہا کہ اگر کمیلا ہیرس ہار گئی تو وہ نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔ مزید یہ کہ کچھ ڈیموکریٹس جو ریپبلکنز کے مقابلے میں تعداد میں کم تھے، انہوں نے کہا کہ وہ نتائج کو بدلنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ جائزے کے مطابق ٪46 فیصد ریپبلکنز اور ٪27 فیصد ڈیموکریٹس نے کہا کہ اگر ان کا امیدوار ہار گیا تو وہ انتخابی نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔ مزید برآں ٪14 فیصد رپبلکنز کے مقابلے میں ٪11 فیصد ڈیموکریٹس نے کہا کہ وہ نتائج کو بدلنے کے لیے ’’عملی اقدامات“ کریں گے۔
یہ تقسیم امریکی اداروں اور ڈیپ اسٹیٹ پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ توانائی اور ٹیکنالوجی کمپنیاں امریکہ میں سیاسی فیصلہ سازی کا حصہ بن چکی ہیں کیونکہ ان کا تعلق دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں آج موجودہ تقسیم کو ہوا دے رہی ہیں۔ ماہر معیشت عبدالغنی القباج نے 13 نومبر 2020 کو عربی ویب سائٹ’ اکانومی فار یو‘ پر شائع ایک مضمون میں کہا، ’’بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کا معیشت، سیاست اور معاشرے پر کنٹرول ہے۔ امریکی عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ معاشرے میں پیسے کی طاقت اور بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کا غلبہ نمایاں ہے۔ ہر انقلابی سوچ اور شعور کو معاشرے سے ختم اور نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ دائیں بازو کے سرمایہ دارانہ رجحانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ عیسائیت کو سرمائے کے تابع کیا جا رہا ہے۔ وہ ترقی پسند سماجی تحریکیں جو امریکیوں کی زندگیوں پر سرمائے کے کنٹرول کی مخالفت کرتی ہیں انہیں بھی دیوار سے لگایا جا رہا ہے“۔
دائیں بازو اور بائیں بازو کے ان گروہوں کے درمیان یہ تقسیم امریکی خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہوئی ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی اندرونی منظرنامے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تقسیم کچھ خارجہ پالیسیوں میں واضح طور پر جھلکتی ہے، جیسا کہ مسئلہ فلسطین ،دو ریاستی حل، روس-یوکرین جنگ کو ختم کرنے کا طریقہ، ایران اور چین کے ساتھ معاملات اور دیگر تفصیلات جو اس بات پر منحصر ہیں کہ کون سا امیدوار جیتتا ہے۔ تاہم کچھ پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے جیساکہ، یہودیوں کی مکمل حمایت جاری رہے گی یا چین کی سرکوبی کی پالیسی ویسے ہی برقرار رہے گی۔
خلاصہ:
یہ تقسیم امریکہ کے لیے نئی نہیں ہے۔ اس کی تاریخ خونریزی اور خانہ جنگیوں سے خالی نہیں رہی۔ جہاں تک سرمایہ داری نظام کی بات ہے تو اس نے یونین کے اندر ریاستوں کے درمیان اقتصادی ناہمواری کی خلیج کو بڑھایا، نسلی تقسیم کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید گہرا کیا۔ فکر اور نظریے کی ساکھ کے بحران کے ساتھ ساتھ یہ عوامل امریکہ کے معاشرے کے اندرونی انتشار کو مزید واضح کرتے ہیں۔ یہ بحران امریکہ کو دنیا کی قیادت کرنے والی ریاست کے رتبے سے ہٹاتےتو نہیں اور نہ ہی اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ تاہم، یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ دنیا کی قیادت اور حکمرانی کے اہل نہیں ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ کے متبادل کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب مسلمانوں کے پاس ایک تہذیبی متبادل موجود ہے۔ جو دنیا کی اصلاح کرنے اور اس میں انصاف و امن پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں پہ ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے بوجھ سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف کی روشنی میں لے آئیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا،
﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةٗ لِّلۡعَٰلَمِينَ﴾
”اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا“۔ (سورۃ الانبیاء: 107)