Menu

    Medina was the first Islamic state

    مدینہ پہلی اسلامی ریاست تھی

    جسیم عباسی 9 گھنٹے ago 0

    بسم الله الرحمن الرحيم

    اب جب کہ امت مسلمہ نیند سے بیدار ہو رہی ہے۔ ان علماء، مفکرین اور داعیوں کے بدولت جو اپنی فکر، حق کے فہم اور جہد مسلسل کی بنا پر پُر امید ہیں کہ نشاةِ ثانیہ کا دروازہ کھلنے کے قریب ہے خلافت کی پکار مومنین کے دلوں کی دحڑکن بن چکی ہے۔ گوکہ چند تحریکوں نے مبہم افکار کی بدولت باطل سے سمجھوتہ کیا لیکن آج امت میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جن کا موٴقف شفاف ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں کفریہ ہیں اور انہیں نبوی طریقہ پَر ہی دارالاسلام بنایا جا سکتا ہے۔ بعد والی تحریکوں میں اس اتفاق کے باوجود اختلاف اس نکتہ پر ہے کہ مدینہ پہلی اسلامی ریاست تھی یا مکہ۔ یہ فرق دعوت کےمیدانِ عمل کو تبدیل کرتا ہے کیونکہ مکہ کو پہلی اسلامی ریاست تصور کرنے سے جہاد منہجِ خلافت کا حصہ ہوگا اور مدینہ میں نہیں۔

    اس تحریر کا مقصد مستند اسلامی ماخذات کو بنیاد بناتے ہوےٴ صحیح تصور تک پہنچنا ہے تاکہ قوی دلیل کی بنیاد پر راستے کو واضح کر دیا جاےٴ یوں امت کمزور اور مضبوط دلیل میں امتیاز کرلے اور اسلامی ریاست کے قیام کی طرف نکلتا ہوا ہر تیر اپنے ہدف پر لگے یہاں تک کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کر دے ۔

       جو نکات عموماً  مکہ کو پہلی اسلامی ریاست تسلیم کرنے کے ذمن میں پیش کےٴ جاتے ہیں ہم ان کا تفصیلی جاٴزہ  لیتے ہیں۔

    • پہلا نکتہ ہجرت کا مقصد مسلمانوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ اور انہیں منظم کرنا تھا تا کہ جہاد کے زریعے حکومت حاصل کریں۔
    • دوسرا نکتہ آپ  کے پاس مدینہ میں طاقت نہیں تھی کیونکہ یہودی اپنے معاملات میں آزاد تھے۔
    • تیسرا نکتہفتح مکہ پر اسلام کی حکمرانی قائم اور انقلاب کی تکمیل ہوئی۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا : – 

    اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا رَّحِيْمٌ ﴿سورة مائدہ آیت۳﴾
    ترجمہ
    "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ "

    پہلے نکتہ کا جائزہ -:

      صرف اسلامی دعوت کےلئے جگہ کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ دعوت   میں سنگِ میل ہے۔  اس واقعہ نے قرآن کی آیات کا اسلوب اور احکامات کا زاویہ بدلہ اور خلیفہ حضرت عمر  نے ہجرت کو اسلامی کلینڈر کی بنیاد رکھا ۔ مکی آیات مختصر ہیں اور ان کا ہدف کفارِ مکہ کے باطل  خیالات ، عقائد اور نظامِ حیات کو نشانہ بنانا تھا بشمول  کے انہیں اسلام کی دعوت عقیدہ اور اس سے نکلنے والے نظام کے طور پر پیش کی جائے۔ اس کے برعکس مدنی سورتیں معاشرے کی تنظیم اور اجتماعی احکامات  کے متعلق ہیں جن کا نفاذ ضروری ہے۔

    نبی کی مکی دعوت واضح تھی کہ وہ   لا اِلہ الا اللہ محمد الرسول اللہ   کا کلمہ معاشرے کی پوری  ہئیت پرغالب  کرنا چاہتے  تھے۔ فکری اور سیاسی جدوجہدجس میں باطل افکار کو منہدم کرتے  ہوئے حق کو پیش کیا گیا ۔ اس کے ساتھ نبی  نے مکہ کے سرداروں کو اس غرض سے بھی دعوت دی کہ وہ اسلام قبول کرکے حکومت رسول   کے حوالے کردیں تاکہ اسلامی نظامِ زندگی کو کارزارِ حیات  میں زندہ کیا جائے۔ اس  ہی بنا پر ابو طالب کے انتقال سے چند روز قبل جب قریش کے ۲۵ سردار آپ   سے  سمجھوتے  کے لئے آئے تو نبی   نے جواب دیا-:

    "یہ ایک لفظ ہے جو تمہیں عرب پر حاوی کر دے اور عجم تمہیں جزیہ دے۔ "

    ابو جہل بولا ” تمہارے باپ کی قسم !مجھے بتائو کیا حرف ہے کہ ایسا ایک نہیں دس الفاظ کہوں۔”

    آپ نے فرمایا کہ ًلا الہ  الاللہ  ً جس پر قریش غصہ  ہو گئے ۔

    دس سال کی انتحک جدوجہد  اور کفارِ مکہ  کے بڑہتے ہوئے استبدار اور اسلام کے خلاف ان کے دلوں کی سختی  کے بعد یہ ظاہر ہو گیا  کہ قریش کبھی  اسلام کے آگے سجدہ ریز نہیں  ہوں گے۔ اس ہی کے بعد آپ نے  طائف کا سفر کیا تاکہ طائف  کے ۳  سرداروں  کو اسلام اور دین کی نصرت  کی دعوت دی جائے۔ نبوی دعوت کا یہ موڑ اہم ترین موڑ ہے جب آپ تقریبا ً ۴۰ قبائل کی طرف  دین کی دعوت اور نصرت کے لئے گئے ۔ اس بات کو نظرانداز کرنا یقیناً منہجِ  خلافت کو اخذ کرنے میں غلطی کی بنیاد ہے ۔

    بہت سارے واقعات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ آپ  کا قبائل کی جانب  رخ کرنا دین  اور  دعوت کی مدد و نصرت کے لئے تھا۔ ابنِ ہشام نے اپنی سیرت کے باب  ًقبائل کو دعوتِ اسلام ً میں لکھتے ہیں  کہ آپ جب قبیلہ بنی عامر کے پاس پہنچے  تو ایک شخص ہیرہ بِن  فراز  نے کہا ” ہم  آپ  کی مدد کریں اور اللہ آپ کو  دشمنوں پہ غلبہ  عطا کردے تو آپ کے بعد ہم حکوبت سنبھال لیں ۔”

    نبی  نے  جواب  دیا "امر صرف  اللہ  کے  لئے ہے  وہ  جسے  چاہے  گا  دے دے گا ۔”

    آپ کے جواب  میں لفظ    ًا لامرً کے معنی  ًحکم  یا  فیصلےً  کے  ہیں   نتیجتاً   یہ  واضح  ہے  کہ  آپ اس  قبیلے سے اختیار اور  فیصلے  کی  مکمل  طاقت مانگ  رہے  تھے۔  اس ہی باب میں ابنِ  ہشام  بیان  کرتے  ہیں  کہ  آپ  منی ٰ میں قبائل کو دعوت  دیتے  ہوئے  فرما رہے تھے-: 

    "اے فلاں قبیلے والوں !  میں اللہ کی جانب سے تمہاری طرف بھیجا  ہوا  رسول  ہوں۔  میں تمہیں  اس چیز کی  دعوت دیتا ہوں کہ  اللہ کو  ایک  مانو اور  اس کے ساتھ کسی کو شریک  نہ کرو۔  میری  حفاظت  کرو تاکہ میں اس کو کھول کر بیان کردوں جو اللہ نے مجھ پر  نازل کی ہے ۔"

    آپ کا آخری جملہ واضح کرتا ہے کہ آپ  انہیں ایک ایسی چیز کی  طرف  پکار رہے جو مکہ میں پوری نہیں ہو پائی تھی  یعنی شریعت کا پوری طرح واضح  ہونا ۔ ایک نظامِ  زندگی  اس  ہی وقت واضح  ہوتا ہے  جب اس کے اجتماعی پہلوٴں   کو معاشرے پہ نافذ کیا جائے  تاکہ حقیقی مثال موجود ہو ۔ ورنہ وہ دھندلا اور  حقیقت  سے  دور  ہوتا  رہتا  ہے جو کتابوں میں محفوط ہو مگر عملی میدان سے غائب۔ اس ہی بنا پر آپ دین کے تفصیلی احکامات کے التزام کے لئے پکار رہے  تھے جو ریاست کے بغیر ممکن  نہیں  ۔ چناچہ دعوت کے مزاج سے یہ بات عیاں  ہے کہ نصرت دینے والے    قبیلے میں اسلام کا پہلے دن سے نافذ ہونا  ناگزیر اور نہ ہونا  دعوت کے مزاج کے خلاف ہے۔

     مزید براں  ہجرت کے لئے  کسی  بھی طرح کی  مدد  درکار نہیں تھی  بلکہ ہر قسم کے سمجھوتے سے بالاتر اور مکمل ہونا  شرط  تھی۔ تاکہ  حکومت اسلام  کو مکمل نافذ کرے اور ہر سمت سے اس کی حفاظت کرے یہی  وجہ ہے کہ آپ نے عامر بن ساسہ کی پیشکش کو   رد کردیا   اور بنی شیبان کی بھی  جنہوں نے عربوں سے تحفظ کا  وعدہ کیا لیکن فارس سے نہیں۔

    سخت موسم،  کٹھن سفراور ایذاء کے باوجود نبی کا نصرت طلب کرنے کے عمل کو جاری رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے  کہ یہ عمل اللہ کی طرف سے تھا نہ کہ آپ  کی ذاتی خواہش کی بنا پر۔ ابنِ عباس سے مروی ہے کہ  ابنِ ہجر کی فتح الباری، حاکم ، بیہقی ، تحفة الاحودی میں معروف سند کے ساتھ حضرت علی فرماتے ہیں  -:

    "جب اللہ نے اپنے نبی کو کو عرب قبیلوں تک دعوت لے جانے کا حکم دیا تو میں اور ابوبکر آپ کے ہمراہ منیٰ گئے  یہاں تک کہ عرب کے قبیلوں تک پہنچ گئے ۔”

    لہٰذا نصرت طلب کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے تھا اور تب تک آپ  نے اس عمل کو جاری رکھا  جب تک یہ عمل پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچ گیا یعنی انصار کا اسلام قبول کرنا ۔ اس ہی بنا پر انہیں انصار کہا گیا یعنی   ًمدد کرنے والےً ۔ اس بات کی تائید قران کی آیت سے ہوتی ہے جیسا کہ-:

     وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا

    جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی۔

    ﴿سورة الانفعال ۷۲﴾

    اپنی سمت میں استحکام اور یکسوئی رکھتے ہوئے آپ بالآخر اوس اور خزرج کے قبیلوں سے ملے ۔ ابنِ ہشام  نے اپنی سیرت  میں، باب ًانصار اور بیعتِ اقباع اولیٰ  ً میں ابنِ عباس سے روایت کیا ہے کہ-:

    "جب اللہ نے اپنے دین کو غالب ، نبی کو معزز اور کامیاب کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہا تو اس کے لئے اسباب بھی مہیا کر دئے۔"

    اللہ نے انصار کے دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کرنا تھا  یوں   بیعت الحرب نے  ہجرت کی نوید سنائی۔ عقبہ کی پہلی بیعت کے اگلے ہی سال ۷۲ مرد اور ایک خاتون یثرب سے  مکہ آئے ۔  یہ لوگ ایامِ تشریق میں رات کی تاریکی میں نبی سے عقبہ کے مقام پر ملے جدہر آپ کے چچا  عباس بھی شامل تھے ۔ دونوں نے گروہ سے خطاب کیا ۔ آپ نے فرمایا -:

    "میں تمہیں حلیف بناوٴں گا جب تم اس بات کا اقرار کرو کہ اس چیز سے میری حفاظت جس سے اپنی عورتوں اور بچوں کی کرتے ہو۔"

    اس پر البراء  نے آپ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا  "خدا کی قسم!   ہم آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول ! ہمارے ساتھ معاہدہ  کیجئے ہم جنگجو لوگ ہیں اور یہ ہمیں نسل در نسل وراثت میں ملی ہے۔” وفد نے مزید پوچھا "اگر آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو کیا آپ ہمیں چھوڑ دیں گے ۔” آپ نے جواب دیا -:

    "میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے اور ہر اس شخص سے امن کا معاہدہ کروں گا جس سے تم امن کا معاہدہ کرو گے۔ میرا  خون تمہارا خون ہے اور میرا معاہدہ   تمہارا معاہدہ  ہے۔” 

    مندرجہ بالا بیعت  کی کیفیعت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ بیعت کا مقصد دین کی مدد و نصرت اور ہر جانب سے نبی کریم کی حفاظت کرتے ہوئے اسلام کا  کامل نفاز کرنا تھا۔ ادھر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اوس اور خزرج  یثرب کے طاقتورترین قبائل تھے  اور یہ مسلسل حالتِ جنگ میں رہا کرتے تھے ۔ آپ کی آمد سے قبل جب انہوں نے جنگ بندی کا معائدہ کیا تو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابئی کو اپنا باہمی سردار چننے کا ارادہ کیا تاکہ  تنازع کے وقت دونوں قبائل اس  کا فیصلہ تسلیم کریں۔ چناچہ یہ قبائل آپ  سے ملے اور ان کے سرداروں نے اسلام قبول کرکے دین کی نصرت کی برعکس اس کے کہ وہ عبداللہ بن ابئی کو سردار چنتے ، یہی وجہ ہے کہ منافقوں کا سردار آپ سے اس لئے کڑھتا کیونکہ سرداری کا منصب جو اس کا نصیب ہوتا اللہ کے فضل سے وہ نبی  کو ملا۔

    جہاں تک سورة بنی اسرائیل کی آیت ۸۰ کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے-:

    وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا

    ترجمہ" اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔”

    ترجمہ" اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔”

    مسند احمد میں ابنِ عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں تھے  اور آپ  کو ہجرت کا حکم ہوا ۔ اس ہی طرح ابنِ کثیر نے اس آیت کو اپنی تاریخ البدایہ و النہایہ کے باب”آپ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کے اسباب"  میں رقم کیا ہے ۔ اس آیت میں لفظ سلطان سے مراد  حکومت  ہے۔ابنِ کثیر اپنی تفسیر میں  لکھتے ہیں-:

    "اللہ سے سلطنت کی دعا کرو اور مدد کی بھی ۔ آپ جانتے تھے کہ سلطنت کے بغیر دین کی اشاعت اور تبلیغ ناممکن ہے ۔اس ہی لئے انہوں نے سلطاناً النصیرا کی  دعا کری  تاکہ وہ اللہ کے دین کو قائم کر سکیں، اللہ کی کتاب کو ، اس کے حدود کو اور فرائض کو ۔۔۔۔۔ وہ اس لئے کہ حق کے ساتھ ساتھ طاقت بھی ضروری ہے تاکہ  حق کے دشمنان  ڈرے رہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ بہت ساری برائیوں کو سلطنت سے روکتا ہے جو قرآن سے نہیں رک سکتیں۔”

    یہ اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ ہجرت کا مقصد دین کا نفاذ اور دعوت کے طرز میں ایک یکسر تبدیلی یعنی معاشرے کی تشکیل اور ریاست کا قیام   کرنا تھا ، ایک ایسا معاشرہ جو دعوت کا علمبردار بنے۔ 

      مدینہ میں ریاست کا قیام مندرجہ ذیل آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے-:

    اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ﴿سورة الحج ۴١﴾

    ترجمہ"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”

    ابنِ کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں "حضرت عثمان  فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے لئے نازل ہوئی کیونکہ ہم جبراً اپنے علاقوں سے نکالے گئے تھے ، پھر اللہ نے ہمیں سلطنت دی۔”

    اس  ہی طرح امام احمد نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ-:

    انصار  نے آپ سے وہ بنیاد دریافت کی جس پر وہ آپ کو بیعت دینے والے تھے ۔ آپ نے فرمایا-:

    • ١۔ ہر حال میں سننا اور اطاعت کرنا ۔
    • ۲۔مفلسی اور خوشحالی ہر حال میں خرچ کرنا۔
    • ۳۔حق بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
    • ۴۔اللہ کے راستے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔
    • ۵۔اگر میں تم سے مدد مانگوں تو اس چیز سے میری حفاظت کرنا جس سے اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کر لیا تو تمھارے لئے جنت ہے۔

    مندرجہ بالا حدیث میں انصار نے اس بات پر بیعت کری کہ  ہر حال میں اطاعت کریں گے ۔ یعنی صریح اطاعت سے مراد وہ احکامات  بھی ہیں جو آپ بطور حاکم جاری کریں گے۔ مزید برآں  تمام مسلمانوں سے بیعت نہ لینا اور صرف یثرب سے آئے ہوئے لوگوں سے بیعت لینا اس امر کا ثبوت ہے کہ بیعت ایک خاص مقصد کے تحط تھی۔ تو پھر کیا یہ بیعت جہاد کی بیعت تھی؟ آئے اس کا جائزہ لیں۔

    یہ بیعت صرف جہاد کی بیعت نہیں تھی گو کہ دین کا مادی قوت سے تحفظ  کرنا اس کا ایک حصہ تھا۔ اس بیعت کا نام بیعت الحرب اس لئے تھا کیونکہ  یہ ہر سرخ و سیاہ سے لڑنے کا عقد تھی، جو اسلامی دعوت میں روڑھے اٹکائے ۔ اس کے باوجود جہاد کا حکم نہیں اترا تھا ۔نتیجتاً  بیعت کا فوری مقصد حکومت کا  منتقل ہونا تھا ۔ ابنِ ہشام اپنی سیرت کے باب  عقبہ کی دوسری بیعت میں لکھتے ہیں۔

    "عباس بن عبادہ )جو انصار میں تھے( نے آپ  سے ہوچھا اگر آپ حکم کریں تو ہم کل ہی منیٰ میں تلواریں لیکر چڑھ دوڑیں لیکن آپ نے جواب دیا کہ  ہمیں اس بات کا حکم نہیں ہوا۔"

    جہاد کی پہلی اجازت سورة الحج  کی آیت ۳۹ میں ملی ۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے-:

     اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۙ

    ترجمہ "اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔”

     اس بات کی تائیدکہ یہ آیت مدنی ہے، سورة کی آیت ۴۰ بھی کرتی ہے  ، جو یہ ہے-:

    ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ

    ترجمہ "یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔”

    اس آیت کا ماحول مدنی ہے ، کیونکہ وہ لوگ مکہ سے نکال دئے گئے ہیں اور اب یقیناً مدینہ میں ہیں۔ گو کہ آیت ۳۹ میں جہاد کا ذکر ہے لیکن یہ اس کی فرضیت کی طرف دلالت نہیں کرتی کیونکہ اس آیت میں لفظ   اُذِنَ  سے  مراد  اجازت  ہے۔  جہاد کی فرضیت کا پہلا حکم سورة البقرة کی آیت ١۹۰ اور  ١۹۳ ہیں۔ لہٰذا ابتدائی دنوں میں جہاد کی اجازت دی گئی جب کہ جہاد فرض بعد میں ہوا۔    

    جہاد یقیناً  دین کا بنیادی ستون اور ریاستِ خلافت  کی خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ ہے تاکہ اسلامی دعوت کے راستے میں حائل  رکاوٹوں کو  ہٹایا جاسکے ۔ جب اسلامی معاشرہ     اپنا   ماحول  بکھیرتا  ہے ، تو  وہ    جہاد  ہی ہوتا ہے جو ضرورت پڑنے پر    باطل کو مادی قوت سے ذائل کرتا ہے اور نئی سرزمینوں پہ اسلام کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ لیکن جہاد کے اس تصور کو عقبہ کی دوسری  بیعت کے ساتھ خلط ملط  نہیں کرنا چاہیئے  اور ایک ایسی  ریاست کے قیام کے ساتھ بھی  جو  اسلام کے بیشمار  فرائض کو  نافذ کرتی ہے اور جہاد بھی کرتی ہے۔

    سورة المائدة کی آیات ۴۴  اور ۴۹  میں  لفظ   الحکم کا صحیح  فہم  بھی  ضروری ہے، کیونکہ یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔ کیا اس سے مراد صرف حکمت، حکم اور  نبوت ہے  یا حکومت بھی؟

    وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ؕ ﴿سورة المائدہ ۴۴ ﴾

    ترجمہ” جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔”

    وَ اَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَؕ ﴿سورة المائدہ  ۴۹﴾

    ترجمہ "پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے ۔”

    الحکم کا لفظی معنی فیصلہ کرنا ہے لیکن اس کا اطلاق فیصلہ اور قانون دونوں پہ  ہوتا ہے کیونکہ اسلام میں سلطان کے پاس  ہی فیصلے کا اختیار ہوتا ہے بلکہ یہ اس پر فرض ہے کہ وہ ایسا کرے  یا پھر کسی قاضی وغیرہ کو مقرر کرے۔ لہٰذا اس سے مراد  یقیناً فیصلہ ہے مگر سلطان بھی  کیونکہ اگر وہ خود فیصلہ دے تو وہ لازماً  جج  ٹہرا   اور   اگر کسی کو جج مقرر کرے تو نسبتاً جج ٹہرے گا ۔ جیسے بالفرض اگر ہم کہیں کہ امیر نے مسجد بنائی  ، تو یہاں پر تعمیر کرانے والا امیر ہے مگر نسبناً کیونکہ  تعمیر کا کام تو یقیناً مزدوروں نے کیا ہوگا۔نتیجناً  تمام فیصلوں کے لئے امیر کا ہونا ناگزیر ٹہرا۔

    اس بات کو مندرجہ زیل آیات کے تناظر میں بھی سمجھا  جا  سکتا ہے۔

    ١۔ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ١ۚ فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِيْنَ ﴿ سورة الانعام ۸۹﴾

    ترجمہ" وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو پروا نہیں ہم نے کچھ اور لوگوں کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں ہیں۔”

    یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ  جن نبیوں کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے انہیں اللہ نے کتاب، حکمت،  حکم اور نبوت  عطا کی۔ حکمت کے لئے جو عربی لفظ آیا ہے وہ  حکومت کا بھی ااحاطہ کرتا ہے۔ اس آیت کی رو سے یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ جس طرح کچھ پیغمبروں کو صحیفے دئے گئے جیسے توراة حضرت موسیٰ کو ، انجیل حضرت عیسیٰ  کو  زبور حضرت داوٴد کو  اور کچھ کو سلطنت دی جیسے حضرت داوٴد اور حضرت سلیمان کو اللہ نے حکومت دی کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات میں تفصیلی قوانین تھے ۔ وہ اس بات کی تبلیغ کرتے اور اللہ کی حکومت کو لوگوں کے دلوں پر قائم کرتے۔اللہ نے نبیوں کو اطاعت اور اپنی کتاب کو نافذ ہونے کے لئے بھیجا ہے۔

    ۲۔ وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَۚۙ ﴿سورة الانبیاء ۷۳﴾

    "ترجمہ اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔”

    امام شوکانی اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں  ً یعنی  اچھے کاموں میں قائدین اور لوگوں پر گورنرز ۔ً

    مدینہ میں رہنے والے لوگ باقی دنیا سے ایک منفرد معاشرہ تھے، وہ ایک مخصوص طرزِ فکر اور طرزِ زندگی کے حامل تھے ، ایک مخصوص نظام اور قانون کے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے بیشمار نصوص پیش کئے جاسکتے ہیں، ہم ایک بیان کرتے ہیں-:

    اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰى يُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ﴿سورة الانفعال ۷۲﴾

    ترجمہ" جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے  دارالاسلام میں آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔”

    یہ آیت مسلمانوں کے درمیان ایک ایسے تعلق کو بیان کر رہی ہے جو عقیدہ سے مختلف ہے ۔ کہ مدینہ میں مکین مسلمانوں کی پوزیشن اس سے باہر رہنے والوں سے مختلف ہے ۔ یہ آیت ایک ریاست اور اس کے شہریوں کے تعلق کو واضح کر  رہی ہے۔ مدینہ کے مسلمان ایک منفرد ہئیت ہیں جو اسلامی معاشر ے کے علمبردار ہیں اور بحثیت ایک شہری کے اس کی بھلائوں سے مستفید ہوتے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں۔مدینہ کی ریاست صرف ان مسلمانوں کے حقوق کی ذمہ دار ہے جو اس کے حدود میں بستے ہوں۔ اس کے باہر کی زمہ دار نہیں گو کہ مدد کی صورت میں غیر مہاجرین کی مدد کی جاسکتی ہے لیکن ان کی پوزیشن مہاجرین جیسی نہیں۔ مسند احمد میں  سلیمان بن بریدہ سے روایت ہے کہ آپ جب بھی دارالکفر کی جانب کوئی لشکر بھیجتے  تو انہیں کہتے-:

    ” انہیں اسلام کی دعوت دینا اگر وہ مان جائیں تو لڑائی سے گریز کرنا ۔ پھر انہیں دعوت دینا کہ اپنی سرزمین سے دارالمہاجرین)دارالاسلام( کی جانب ہجرت کریں اور انہیں بتانا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں وہی حقوق ملیں گے جو مہاجرین کو ملتے ہیں اور ان پر وہی ذمہداری عائد ہو گی جو مہاجرین پہ عائد ہوتی ہیں۔”

    یہ حدیث اسلامی ریاست کے باشندوں کی ذمہ داریوں، حقوق اور مراعات کو بیان کرتی ہے۔ حدیث کی رو سے ایک ایسی ریاست کا موجود ہونا ناگزیر ہے جو اسلام کے نفاذ کو یقینی بنا رہی ہو اور اگر وہ دارالاسلام  کی طرف ہجرت  نہ کریں تو  وہ محروم ہوں گے۔

    اہم ترین بات یہ ہے کہ جو احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوٴئے وہ معاشرے کے اجتماعی پہلو سے متعلق تفصیلات رکھتے تھے۔جیسے معاشی اور معاشرتی اور عقوباتی  پہلوٴں پہ قرآن کی آیات کا نزول۔جیسے خوراک میں حلال و حرام  کی حدبندی مثلاً شراب اور سوئر کے گوشت کی حرمت وغیرہ۔ سورة البقرة کے آخری ۲۳ رکوع میں  مندرجہ ذیل احکامات نازل ہوئے جن کا نفاذ ریاست کرتی ہے-:

    • ١۔عائلی زندگی ، طلاق اور مرد  عورت کے  تعلقات کے حدود   و  قیود  سے متعلق احکامات (معاشرتی نظام)۔
    • ۲-بھلائی کے کاموں میں  خرچ کرنے کے لئے ابھارنا۔
    • ۳۔سعود کو حرام اور تجارت کو حلال کرنا(معاشی نظام )۔
    • ۴۔قرضوں اور تجارتی معاہدوں کے متعلق احکامات (معاشی نظام)۔

    اسی طرح سورة نساء میں معاشرے سے متعلق جو احکامات اترے ان میں سے چند یہ ہیں-:

    • ١۔یتیموں کے حقوق اور وراثت کے قوانین (معاشرتی نظام)۔
    • ۲۔ مہر کی رقم، نکاح اور گھر سے متعلق دیگر احکامات (معاشرتی نظام)۔
    • ۳۔ محرم اور نامحرم کی وضاحت (معاشرتی نظام).۔
    • ۴۔مسلمانوں کے درمیان، اہلِ کتاب کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جن سے معاہدہ ہوا ہو ، تعلقات کی حد بندی۔

    اس حقیقت کو سمجھنا مزید آسان  ہوگا جب ہم ان احکامات کو موجودہ معاشرے پہ جاری کرکے دیکھیں۔ ان احکامات پر عمل ریاست کے بنا ممکن ہی نہیں تو آپ کس طرح ان احکامات کو بغیر ریاست قابلِ عمل بنا لیتے؟

    دوسرے نکتے کا جائزہ  -:  

    اگر نظام معاشرے میں نافذ نہ ہو رہا ہوتو وہ  محظ  ایک  اچھا خیال رہ جاتا ہے جو تدریسی لحاظ سے زبردست ہو مگر حقیقت میں غیر موٴثر ہو۔اسلام اس لئے آیا تاکہ لوگوں کے تعلقات اور معاشرے کو اپنے نظام کے تحط منظم کرے تاکہ مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالق کی غلامی کی طرف موڑے، ایسا ذندگی کے ہر کل اور جز پر ہو، آپ نے اس ہی لئے بحیثیت حکمران ہجرت کری۔ نبی کی مدنی ذندگی اسلام کے پیغام اور اس سے نکلنے والی روشنی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور دعوت کا درخشندہ باب جس نے تاریکی میں ڈوبتے ہوٴئے  دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کرنا تھا اور اللہ کی ذمین پر اس کے نظامِ ذندگی کا سکہ رائج کرنا تھا۔

    مکہ کی ذندگی  سے برعکس جہاں مسلمان محکوم تھے اور معاشرہ کفر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مدینہ میں اسلام غالب اور ہر خاص و عام کے خیالات پہ حاوی تھا، اس ہی وجہ سے مکی اور مدنی سورتوں کا  خطاب اور اسلوب بھی مختلف ہے۔ اس بات کی ایک اور دلیل منافقین کی موجودگی ہے جو مکہ میں ظاہر نہیں ہوئے تھے  کیونکہ جو لوگ مکہ میں کھلِ عام اسلام کی مخالفت کرتے تھے انہیں  مدینہ میں اسلام کے غلبے کی وجہ سے  آستین میں چھپ کر  وار کرنا پڑتا  یوں  عبداللہ بن ابئی کو بھی سرنگوں ہونا پڑا اور اس نے اسلام قبول کرنے کا جھوٹا ڈھونگ رچایا۔

    آپ نے مدینہ آتے ہی مسجد کی تعمیر کری، یہ باہمی اختلافات کو حل کرنے، مشورہ  اور دیگر فیصلوں کی جگہ تھی۔مسلمان آپ سے ہر عمل کے بارے میں دریافت کرتے اور آپ ان کے امور کی دیکھ بھال کرتے، لہٰذا آپ مدینہ کے حاکم بھی تھے،سپہ سالار بھی اور قاضی بھی۔

    مدینہ کی معاشی  طاقت یہود تھے۔وہ اوس اور خزرج کے درمیان نہ ختم ہونے والے تنازعات چھیڑتے  اور  جب یہ قبیلے باہم دست و گریباں رہتے تو یہود ان کی  توجہ ہٹا کر ان کا معاشی استحصال کرتے۔ آپ کی مدینہ آمد نہ صرف یہود کی اس چالاکی کے اختتام کی گھنٹی تھی بلکہ ان کی نام نہاد مذہبی اجارہ داری کے لئے بھی جس کی وجہ سے دیگر قبیلے انہیں عزت دیتے۔ یہود کےبڑے قبیلوں میں بنو قینقاع مدینہ کے اندر رہتے تھے  جب کہ بنو نظیر ، بنو خیبر اور بنو قریظہ مدینہ سے باہر۔مدینہ کی علاقائی اور سیاسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے اس کے دو حدود مقرر کئے  ایک  حرہ  شرقیہ دوسرا  حرہ  غربیہ۔ مدینہ کے چار اطراف میں سے ایک طرف کھجور کے گھنے میدان تھے   جب کہ دوسری طرف ریگستانی  پہاڑوں کے جھنڈ  ۔ تیسری سمت مدینہ کی سرحدوں پہ موجود یہود سے ملتی تھی اور چوتھی مکہ کی طرف جاتی تھی۔ آخری دو سمتوں سے مسلمانوں کو خطرہ تھا ۔ یہودی آپ  کی مدینہ آمد کے بعد اسلام کو کھلم کھلا چیلنج نہیں کر رہے تھے کیونکہ مدینے کا با اثر طبقہ اب اسلام کے کیمپ میں تھا۔ لیکن دوسری طرف کفارِ مکہ مسلمانوں کے خون کی پیاس میں ذبان نکالے کھڑے تھے۔یہ آپ کا سیاسی فہم تھا کہ یہود کہ ساتھ معاہدہ کرکے مدینہ کو تین اطراف سے  محفوظ کر دیا جائے تاکہ پوری توجہ کے ساتھ کفارِ مکہ  کی اجارہ داری اور  سیاسی  ہیبت کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ بدر سے پہلے کی سریات اور غزوات کفارِ مکہ کی جانب بھیجی گئیں۔ نبی نے قریش کے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کو   یرغمال بنایا جو  مدینہ سے گزرتے اور اس کے لئے    RED SEA COAST   اور مدینہ کے درمیان موجود قبائل سے معاہدے کئے گئے ، جیسے بنو دمارہ  اور بنو مدلج۔

    اسلام  کی آمد سے قبل بھی یہودی مدینہ کے معاشرے سے کٹے ہوئے تھے  پھر بھی مدینہ کی نومولود  ریاست کے لئے ناگزیر تھا کہ  اردگرد کے لوگوں اور اپنے باشندوں کے درمیان  تعلقات کی وضاحت کرے تاکہ ریاست طے شدہ عزائم کو حاصل کرے اور اس کے درمیان کسی کو حائل نہ ہونے دیا جائے۔ لہٰذا  میثاقِ  مدینہ   رقم کیا گیا  جس نے مدینہ کے لئے دستور کی حیثیت اختیار کی۔اس میثاق میں بنیادی طور پہ اوس اور خزرج کے قبائل شامل تھے اور یہودیوں کو اس شرط پہ  شامل ہونے کی دعوت دی گئی کہ وہ رسول کے فیصلوں کو تسلیم کریں گے۔ وہ یہودی جو معاشی طاقت تھے اسلام کے غلبے کے آگے جھک گئے ۔  یہ میثاق کسی طور بھی یہود یوں کو فروغ نہیں دیتا۔   میثاق کے مندرجہ ذیل نکات قابلِ توجہ ہیں-:

    • ١۔ قریش اور ان کے حواریوں کو کوئی حفاظت نہیں دی جائے گی، اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو معاہدہ  پہ   دستخط کرنے والے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
    • ۲۔مدینہ کی ریاست معاہدہ پر دستخط  کرنے والوں کے لئے مقدس  ہے۔
    • ۳۔اگر دستخط کرنے والوں کے درمیان کوئی اختلاف ہوا  تو اللہ اور اس کے رسول کو فیصلے کا اختیار ہو گا۔
    • ۴۔دستخط کرنے والوں کو قریش کا معاشی طور پر مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا، انہیں قریش کی معمولی مدد سے بھی ہاتھ کھینچنا ہوں گے۔
    • ۵۔ آپ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مدینہ سے باہر نہیں جائے گا۔
    • ٦۔اگر کسی تیسری  قوت نے حملہ کیا تو ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کرے گا۔
    • ۷۔ مسلمان دوسری قوموں سے ایک الگ امت ہیں۔

    لہٰذا سیاسی استحکام اور مدینہ کو اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے  ، یہودیوں کو اسلامی اتھارٹی کے ذیل کرنے اور اس کے مقاصد کی پامالی سے  پابند رکھنے کے لئے   اور خاص  طور سے قریش کے خلاف متحد کرنے کے لئے   معاہدہ کیا گیا۔ یہ بات  بھی قابلِ  ذکر ہے کہ جب بھی یہود نے معاہدہ کی پامالی کری انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ سب سے پہلے ۲ہجری میں  بنو قینقاع نے معائدہ توڑا ، انہوں سے مسلمان خاتون کی عزت پامال کی اور ایک مسلمان کو شہید کیا  دریں اثناء اپنے فعل سے جنگ کا بھی اظہار کیا ۔ نبی نے ١۵  روز کے محاصرے کے بعد سب کو قتل کرنے کا حکم دیا  لیکن عبداللہ بن ابئی جس نے اس وقت منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا نے نبی  کی منت سماجت کی لہٰذا بنو قینقاع کو مدینہ  بدر کر دیا گیا ۔۴ہجری میں  بنو نظیر کو مدینہ بدر کر دیا گیا جب انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی کوشش کری ، اس سے پہلے ان کے ایک سردار کعب بن اشرف کو  قتل کیا جاچکا تھا جس نے احد کے بعد معاہدہ کو توڑتے ہوئے  قریش کو جنگ کرنے پر ابھارا اور ان کی اعانت کی تھی۔۵ ہجری میں بنو  قریظہ کے تقریباً ۷۰۰ لوگوں کو رسول کے حکم پر قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے غزوٴہ احزاب میں قریش کا ساتھ دیا تھا۔ اور بالآخر ۷ ہجری میں خیبر کی فتح سے یہودیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ یہود کا عبرت ناک انجام آپ کے اختیارات کی وسعت کی غمازی کرتا ہے اور یہ واقعات آپ کی اتھارٹی کو روزِ روشن کی طرح آشکار کرتے ہیں۔

    جس بات کی وضاحت  ضروری  رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ پھر کیا وجہ تھی کہ آپ  نے یہودیوں کو اپنے فیصلے توراة کے مطابق کرنے کی اجازت دی جو ایک منسوخ شریعت ہے؟

    اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ  چونکہ اسلام کے تمام احکامات اس وقت نازل نہیں ہوئے تھے، جیسے جیسے مختلف آیتیں مختلف واقعات کی مناسبت سے نازل ہوتیں صحابہ اس کا التزام کرتے  اس ہی وجہ سے بیشتر آیتیں منسوخ بھی ہوئیں کیونکہ دین پورا نہیں ہوا تھا۔ 

    یہودی  ایک مرتبہ نبی کے پاس ایک زانی  کو لائے ۔ توراة میں شادی شدہ زانی کی سزہ سنگسار ہے لیکن یہودیوں نے ا س میں تحویل کردی تھی۔ جب آپ نے ان کے درمیان فیصلہ کیا تو ان سے دریافت کیا  کہ-:

    "توراة میں زانی کی کیا سزہ ہے؟ "

    یہودیوں نے جھوٹ بولا مگر جب توراة کھولی گئی تو صحیح حکم پتہ چلا اور اسے نافذ کر دیا گیا ۔ اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی-:

    سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ﴿سورة المائدہ ۴۲﴾

    ترجمہ" یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں، لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو  ورنہ انکار کر دو انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”

    لہٰذا اللہ  کا حکم صاف ہے کہ یہودیوں کے فیصلے ان کی کتاب کے مطابق کرنے کا آپ کے پاس اختیار ہے ۔مسلمانوں کے لئے اعمال کی بنیاد  صرف اور صرف شریعت ہے نہ کہ ہمارے ظاہری تجزیات، خواہشات یا عقل۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا-:

     اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ١ۘوَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ ﴿سورة البقرة ۲۷۵﴾

    ترجمہ "مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے”، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔”

    یعنی اپنی عقل لگاتے ہیں تو دونوں چیزیں انہیں یکساں معلوم ہوتی ہیں جب کہ اللہ کا حکم کچھ اور ہے۔ اس ہی طرح  سورة المائدة کی آیت ۴۲ میں جب اللہ نے  نبی  کو فیصلے کا اختیار دے دیا تو یہی اللہ کا حکم ٹہرا، یوں ایک مسلم کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے مقرر قانون کو طاغوت سمجھے۔ جیسا کہ ابتداء میں شراب  بھی حلال تھی ۔ 

    ابنِ ہشام لکھتے ہیں کہ آپ ایک  محفل سے گزر رہے تھے جس میں یہودی توراة پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص نے سوال کیا   ًاے محمد! تم کس دین پر عمل کرتے ہو؟ ً  آپ نے فرمایا  ً  میں ملتِ ابراہیم پر ہوں۔ً  یہود نے کہا کہً ابراہیم تو یہودی تھےً ۔ آپ نے جواب دیا   ً توراة  لاوٴ   وہ تمہارے اور میرے درمیان فیصلہ کرے گیً۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئ-:

    اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴿سورة آلِ عمران ۲۳﴾

    ترجمہ” تم نے دیکھا نہیں جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، اُن کا حال کیا ہے؟اُنہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے ۔”

    ادھر بھی آپ نے اللہ کے حکم کی اطاعت میں ہی توراة منگوائی ناکہ یہود کے غلبہ سے۔ اگر آپ  کا باطل کے خلاف اتنا نرم موٴقف  ہوتا تو آپ کب کا کفارِ مکہ سے سمجھوتہ کرلیتے، لیکن یہ تصور محال ہے۔ یہود کے معاملے کے برعکس جب ایک مسلمان نے یہودی کے ساتھ تنازع کی صورت میں کاہن سے رجوع کرنے کی ٹھانی توسخت الفاظ اترے -: 

    اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ﴿سورة النساء ٦۰﴾

    ترجمہ" اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔”

    چناچہ بعد میں فیصلہ کرنےیا نہ کرنے  کا اختیار منسوخ ہوگیا اور اس کو منسوخ کرنے والی آیت یہ ہے-:

    وَ اَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ ﴿سورة المائدہ ۴۹﴾

    ترجمہ   "پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔”

     تفسیر ابنِ کثیر مین درج ہے کہ ابنِ عباس کہتے ہیں کہ-:

    ” ان آیات کے نزول سے قبل آپ کو اختیار تھا کہ چاہے تو فیصلہ کریں یا نہ کریں، لیکن اس آیت کے نزول کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ تمام معاملات میں اللہ کی وحی سے فیصلہ  کریں کیونکہ یہود نے اللہ کے حکم کو تبدیل کردیا اور کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا۔”

    تیسرے نکتے کا جائزہ   -:  

     قریش کی قوت کو ختم کرنے اور خیبر کی فتح کے بعد ہی اسلام حجاذ پہ  غالب آچکا تھا اور مکہ کی کفریہ ریاست کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ ٹوٹی ہوئی دیوار کو آخری دھکہ دیا جائے ۔ لہٰذا  اسلامی ریاست مدینہ کی واحد پاور بن گئی۔

    اس بات سے اختلاف نہیں کہ فتح مکہ اسلام کی عظیم ترین فتح ہے  لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں  کہ آپ کے پاس حکمرانی اس وقت آئی جب مکہ فتح ہوا۔ جس طرح ہم ثابت کر چکے کہ آپ کیسے مدینہ پر حکومت کرتے اور مدینہ کے اجتماعی تنازعات حل کرتے۔  صلح حدیبیہ دو ریاستوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ لہٰذا ریاست کا بنیادی تصور ایک اتھارٹی ہے  جو کسی نظامِ حیات پہ لوگوں کو پابند کرے اور ان کی تنظیم کرے جو مدینہ میں پہلے دن سے موجود تھا نہ کہ معاشی ترقی اور افرادی قوت وغیرہ۔ یوں دین کے غالب ہونے اور مکمل ہونے کے درمیان بھی فرق ہے۔

    Leave a Reply

    Leave a Reply

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے