
پچھلی قسط میں ہم نے بات کی تھی اسلام میں حاکم یا شارع صرف اللہ سبحان تعالی کی ذات ہے، اسی موضوع سے متعلق ایک اور اہم بحث یہ ہے کہ شارع کا خطاب کس کے لیے ہے؟ شارع کا خطاب جس بندے سے مخاطب ہے، اس پر’ ’محکوم علیہ ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام کے بارے میں شارع کا خطاب، سب انسانوں سے مخاطب ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کفار اور ان سب کا، عقیدے اور احکام کے بارے میں، حساب ہو گا۔ یعنی کفار بھی، ایمان لانے اور احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے، دونوں کے مکلف ہیں۔ ﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾7:158 آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں
یہ خطاب تمام انسانوں کے لئے عام ہے، لہذا اس میں مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں۔ یہاں یہ نہیں کہا جائے کہ چونکہ اس میں رسالت کے بارے میں خطاب ہے، اس لئے یہ آیت، کفار سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطالبہ کر رہی ہے، نہ کہ فروعی احکام کی تکلیف کا۔ یہ اس لئے کیونکہ رسالت عام ہے، جو ایمان لانے اور فروعی احکام پر عمل، دونوں کو شامل ہے۔ دوسری صورت میں اس خطاب کو ایمان کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جبکہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں اور یہ سراسر غلط ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے صریح خطاب سے، کفار کا فروعی احکام کا مخاطب اور مکلف ہونا ثابت ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ ﴾2:21 اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو. ﴿ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾3:97 اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے
ان فروعی احکام کے ترک پر سخت وعید و عذاب سے، ان کا حساب قرآن سے ثابت ہے : ﴿ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ﴿٦﴾ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾41:6-7 اور ان مشرکوں کے لئے )بڑی ہی) خرابی ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے) ﴿ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا﴾ إلی قولہ ﴿ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ﴾74:42-44 (تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا، وہ جواب دیں گے …..اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے) 2) کافر کے ان افعال کو قبول نہیں کیا جائے گا جن کی ادائیگی کی صحت کے لئے اسلام شرط ہے، مثلاً عبادات، حقوقِ مالیات میں گواہی جیسے قرض یا کافر کی مسلمانوں پر حکومت وغیرہ۔ البتہ جن افعال کے لئے اسلام شرطِ صحت نہیں ہے، تو انہیں قبول کیا جائے گا جیسے کسی کافر کا مسلمانوں کے ساتھ مل کر قتال کرنا یا سفر میں وصیت پر گواہی۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ﴾5:106 (اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو،و ہ دو شخص تم میں سے ایسے ہوں کہ دیندار ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آ جائے) (مسلمان اپنے تمام افعال کو احکامِ شرعیہ کے مطابق سر انجام دے گا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾4:59 (اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور تم میں سے صاحبِ حکومت کی پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی جانب) اسلامی ریاست میں کفار پر، عقدِ ذمہ کے باعث، احکامِ شرعیہ نافذ ہوں گے۔ ﴿ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾9:29 (یہاں تک وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں)
یعنی یہ لوگ اسلامی احکام کے سامنے جھکیں۔ لہذا انہیں اسلامی احکام کے عمل پر مجبور کیا جائے گا لیکن اسلامی عقیدے پر ایمان لانے پر نہیں کیونکہ : ﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾2:256 (دین)یعنی قبولِ اسلام)کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں) اسی طرح عبادات، نکاح و طلاق اور لباس و کھانے پینے کے مسائل میں انہیں، شریعت کے حدود اندر رہتے ہوئے، اپنے رسم و رواج پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کے دلائل سنت سے ثابت ہیں۔ 4) بالغ ہونا، لہذا بچہ مکلف نہیں ہے۔ 5) عاقل ہونا، لہذا مجنون مکلف نہیں ہے۔ 6) ہوشمند ہونا، لہذا سونے والا مکلف نہیں ہے۔ ’’ رفع القلم ثلاث: الصبی حتی یبلغ و النائم حتی یستیقظ و المجنون حتی یفیق ‘‘(زید) ( تین لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے :بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے، سونے والا جب تک وہ بیدار نہ ہو جائے اور پاگل جب تک وہ ہوش میں نہ آ جائے) یہاں رفع القلم سے مراد تکلیف کا اٹھا دیا جانا ہے۔ مندرجہ ذیل عذرات پر مکلف کا مواخذہ نہیں ہو گا: 1) مجبور ی جس میں جان کا خطرہ ہو یا وہ جو اس حکم میں آئے۔ 2) بھول یہاں تک کہ یاد آ جائے۔ (خطا، یعنی وہ فعل جو، بغیر اختیار کے، غیر عمداً ہو جائے۔) ’’ إن اللّٰہ وضع عن أمتی الخطأ و النسیان وما استکرھوا علیہ ‘‘(ابن ماجہ) (میری امت سے غلطی اور بھول اور جبر اٹھا لی گئی ہے) یعنی مکلف سے مواخذہ اٹھا دیا گیا ہے۔