
قرینہ کا معنی خطاب کی مراد متعین کرنے والی لفظی یا احوالی علامت ہے۔ حکم شرعی کی قسم کو نصوص کے قرائن سے سمجھا جاتا ہے۔ یعنی انہی قرائن سے کسی فعل کا فرض، مندوب، مباح، مکروہ یا حرام ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ قرینہ کی تین اقسام ہیں :
(۱) وہ جو طلبِ جازم ہونے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے فرض یا حرام ہونے کا تعین ہوتا ہے۔
(۲) وہ جو طلبِ غیر جازم ہونے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے مندوب یا مکروہ ہونے کا تعین ہوتا ہے۔
(۳) وہ جو اختیار دینے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے مباح ہونے کا تعین ہوتا ہے۔
طلبِ جازم کے قرائن
- دنیا یا آخرت میں سزا۔
﴿والسارق و السارقۃ فاقطعوا أیدیھما جزاء بما کسبا نکالا من اللّٰہ﴾5:38 (چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو،یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا عذاب اللہ کی طرف سے)
﴿إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما إنما یأکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا﴾4:10(جو لوگ نا حق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے)
- جب کسی فعل کو تسلسل سے کرنے کے ساتھ کسی عذر پر کوئی رخصت یا قضا یا معافی کا بیان ہو۔
﴿یا أیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون أیاما معدودات فمن کان منکم مریضا أو علی سفر فعدۃ من أیام أخر﴾2:183-184 (اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے)
﴿یا أیھا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوھکم وأیدیکم إلی المرافق وامسحوا برؤوسکم وأرجلکم إلی الکعبین ﴾إلی قولہ﴿فلم تجدوا ماء فتیمموا﴾5:6 (اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو،اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو…..تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو)’من نام عن صلاۃ أو نسیھا فلیصلھا إذا ذکرھا ‘‘(متفق علیہ) (جس کسی نے نیند یا بھول کی وجہ سے نماز نہ پڑھی ہو تو یاد آتے ہی اسے پڑھ لے)
- جب کوئی قول یا فعل کسی التزام کی ضرورت کو بیان کرے باوجودیکہ اس میں مشقت و دشواری پائی جائے اور اس کا کوئی بدل نہ ہو۔
﴿کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم﴾2:216 (تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے گو کہ وہ تمہیں نا گوار معلوم ہو)
اسلامی ریاست کو رسول اللہ ﷺ نے ایک معین طریقے سے قائم کیا، جس میں طاقتور قبائل سے نصرت طلب کرنا بھی شامل تھا۔ ان سرگرمیوں میں آپؐ لہو لہان بھی کر دیے گئے مگر آپ ؐ نے یہ کام جاری رکھا اور قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے، یعنی شدید تکلیف اور موت کے خطرے کے باوجود، آپؐ طلبِ نصرت کے عمل کو مستقل طور پر سرانجام دیتے رہے۔
’’ لو لا أن أشق علی أمتی لأمرتھم بالسواک عند کل صلاۃ ‘‘(متفق علیہ) (اگر مجھے اس میں میری امت کے لئے دشواری نہ نظر آتی تو میں اسے ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا) آپ ؐ نے امت کو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم اس لئے نہیں کیا کہ اس میں اس کے لئے دشواری تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ؐ کے کسی حکم پر، اگر کسی فعل کی ادائیگی میں دشواری ظاہر ہو، تو وہ امر فرض ہو گا۔
- اگر کوئی فعل کسی واجب کا بیان ہو یا اس کا موضوع فرض ہو یا اسلام کی حفاظت پر دلالت کرے۔
’’ خذوا عنی مناسککم ‘‘(مسلم) (اپنی حج کے مناسک مجھ سے لو) ﴿ولتکن منکم أمۃ یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ﴾3:104 (تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی طرف بلائے،اچھائی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے)
’’ مروا أبناء کم بالصلاۃ لسبع واضربوھم علیھا لعشر وفرقوا بینھم فی المضاجع ‘‘(أبو داود) (اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جبکہ وہ سات برس کے ہو جائیں اور دس سال کی عمر میں انھیں مارو)اگر وہ نہ پڑھیں ) اور ان کے بستر علیحدہ کر دو)
- جب کسی حکم کی بجا آوری کو متعدد صورتوں میں محدود کر دیا جائے اور ان میں اختیار دیا جائے۔
﴿و إذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منھا أوردوھا﴾4:86 (اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو)
- نص میں ایسے الفاظ کا ذکر جو بذاتِ خود وجوب و فرضیت یا حرمت پر دلالت کریں۔
﴿یوصیکم اللّٰہ فی أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾الی قولہ ﴿ فریضۃ من اللّٰہ﴾4:11 (اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ……یہ حصے تم پر اللہ کی طرف سے فرض کر دیے گئے ہیں) ﴿إنما حرم علیکم المیتۃ ﴾2:173 (تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے) لا یحل لامراۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعھا محرم ‘‘(متفق علیہ) (جو عورت اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے محرم کے بغیر ایک دن اور ایک رات سے زیادہ سفر کرے)
- جب کسی عمل کو ایسے وصف سے موصوف کیا جائے جس سے نہیِ جازم سمجھی جائے، مثلاً اللہ کی ناراضی یا غضب، مذمت یا کوئی قابلِ نفرت وصف جیسے بے حیائی یا شیطانی عمل، ایمان یا اسلام کی نفی وغیرہ۔
﴿ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیھم غضب من اللّٰہ﴾16:106 (مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے)
﴿ إنہ کان فاحشۃ ومقتا وساء سبیلا ﴾4:22 (اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرنا)یہ بے حیائی کا کام ہے اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے) ﴿لا یتخذ المؤمنون الکافرین أولیاء من دون المؤمنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللّٰہ فی شیئ﴾3:28 (مومنوں کو چاہیے کہ وہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں)
- جب طلب ایمان کے ساتھ مقرون ہو یا جو کچھ اس کے قائم مقام ہے۔
﴿ لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ أسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللّٰہ والیوم الآخر﴾33:21 (یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں بہترین نمونہ موجود ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور روزِ قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے)
- جب طلب منعِ مباح کے ساتھ مقرون ہو۔
﴿یا أیھا الذین آمنوا إذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکراللّٰہ وذروا البیع ذلکم خیر لکم إن کنتم تعلمون﴾62:9 (اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو،یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو)
- اگر ما لا یتم الواجب إلا بہ فھو واجب کے قاعدے میں شامل ہو۔ یعنی ہر وہ عمل جو کسی واجب کی کفایت کرے اور اسے نفع پہنچائے۔
مثال کے طور پر نماز کے لئے اس کے ارکان(رکوع، سجدہ وغیرہ)، کیونکہ ان کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی چیز اس عمل میں شامل نہیں بلکہ اس سے خارج ہے، تو اس صورت میں وہ کسی دوسری دلیل کی محتاج ہے۔ مثلاً وضو، کیونکہ یہ نماز کا حصہ نہیں بلکہ اس کی شرط ہے۔اسی طرح اس قاعدے کے مطابق اسلامی ریا ست کے قیام کے لئے جو بھی اعمال درکار ہیں، وہ بھی لازم ٹھہرے۔ یعنی ایک منظم جماعت کا ہونا، جو اسلامی مبداء( ضابطہ حیات) پر قائم ہو، اس کی طرف پکارے اور اس مبداء کو زندگی میں نافذ کرنے کے لئے فکری اور سیاسی جدوجہد کرے۔
- اگر کسی کام میں کوئی فعل اصولی طور پر ممنوع ہو، مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کے باوجود، ایک خاص موقع پر، اسے سرانجام دیا ہو۔
مثال کے طور پر نماز کی ایک رکعت میں ایک سے زیادہ رکوع کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مگر نمازِ خسوف میں رسول اللہ ﷺ کے فعل سے یہ ثابت ہے کہ آپؐ نے دو رکوع فرمائے جو اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ٹھہرا۔ لہذا یہ دو رکوع نمازِ خسوف کے رکن قرار پائے۔
:طلبِ غیر جازم کے قرائن
- جب کسی فعل میں ترجیح اور مدح پائی جائے۔
’’ تبسمک فی وجہ أخیک صدقۃ ‘‘(الترمذی) (اپنے بھائی کے سامنے چہرے پر مسکراہٹ لانا صدقہ ہے)
- جب کسی فعل کی نہی اس پر سکوت کے ساتھ ہو، تو یہ فعل مکروہ ہو گا۔
’’ إن ذلک لیس بشفاء ولکنہ داء ‘‘(ابن ماجہ) (یہ)حرام چیز)شفاء نہیں بلکہ بیماری ہے ) فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ۔ یعنی الإبل فیشربوا من ألبانھا وأبواھا (البخاری) پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے چراوے کے پیچھے چلنے کا حکم دیا۔ یعنی اونٹوں کے، تاکہ وہ ان کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ پہلی حدیث میں حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دوسری حدیث میں حرام چیز کے دوا کے طور پر استعمال کا اقرار کیا گیا ہے، نہی اور سکوت نے مل کر کراہت کا فائدہ دیا۔
- جب کسی فعل میں اللہ کی قربت پائی جائے۔
’’ إن الدعاء ھو العبادۃ ‘‘(ابن ماجہ) (بے شک دعا عبادت ہے)
تخیر کے قرائن:
- جب رسول اللہ ﷺ سے کسی فعل کا کبھی کرنا اور کبھی ترک کرنا ثابت ہو۔
میت کا جنازہ گزرتے وقت آپؐ کا کھڑا ہو جانا اور بیٹھا رہنا، دونوں ثابت ہیں، لہذا اس میں اختیار دیا گیا ہے اور یہ مباح ٹھہرا۔
- جب کسی فعل پر، بغیر کسی عذر کے، شرع نے عام طور پر معافی دی ہو۔
’’ الحلال ما أحل اللّٰہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللّٰہ فی کتابہ وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ ‘‘)ترمذی) حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس پر وہ خاموش ہے وہ معاف ہے۔
- افعالِ جبلی جو خصائصِ جسم کے ساتھ مربوط اور انسان کے لئے اللہ کی تخلیق میں سے ہیں اور جن کی تخصیص و تقید نہ کی گئی ہو۔
﴿ کلوا واشربوا من رزق اللّٰہ ﴾2:60 (اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ اور پیو)﴿أو لم ینظروا فی ملکوت السموات والأرض﴾7:185 (اور کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں آسمانوں اور زمین کے عالم میں)﴿ فامشوا فی مناکبھا﴾67:15 (تاکہ تم اس کی را ہوں میں چلتے پھرتے رہو)
- جب کوئی فعل کسی سبب کی وجہ سے حرام ہو، تو سبب ختم ہوتے ہی یہ دوبارہ جائز ہو جائے گا۔ مثلاً نمازِ جمعہ کے بعد تجارت فوراً جائز ہو جائے گی کیونکہ جمعے کی نماز کا سبب زائل ہو گیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فعل کسی مانع کی وجہ سے حرام ہو، تو مانع زائل ہوتے ہی وہ فعل جائز ہو جائے گا۔ مثلاً ناپاکی مصحف(قرآنِ پاک) کو چھونے کا مانع ہے، پس جب طہر)پاکی) حاصل ہو گئی تو قرآن کو چھونا مباح ہو جائے گا۔