
امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ بلا شبہ صرف اسلام کی بنیاد پر ممکن ہے، مگر یہ امر مسلمانوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات یعنی مبداء(ideology) کی حیثیت سے اختیار کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مسائل کے لیے، زندگی کے ہر پہلو سے متعلقہ معالجات (solutions) درکار ہوتے ہیں اور ان کی فعّالیت اس بات پر منحصر ہے کہ آیا یہ اس عقیدے (creed) سے ہم آہنگ ہیں جس پر لوگ اعتقاد رکھتے ہیں یا نہیں۔ چونکہ مسلمان اسلام کے عقیدے پر پہلے سے ایمان لاتے ہیں، اس لیے ان کے مسائل کی طبعی اور صحیح نگہداشت تب ہی ممکن ہے جب وہ ان نظاموں (systems) کو اختیار کریں، جو اس اسلامی عقیدے سے نکلتا ہے۔
افسوس کہ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث، آج بھی کئی مسلمان اپنے مسائل کے حل مغرب میں ڈھونڈتے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغربی نظریات و معالجات کو مسلمانوں کے معاشرے پر نافذ کرنے سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ اس کے باوجود کہ گذشتہ صدی کے بیشتر حصے میں ریاستی سطح پر صرف انہی مغربی نظاموں کو ہمارے اوپر نافذ کیا گیا ہے، مگر ہمارے معاشرتی حالات مزید بد تر ہوتے گئے ہیں۔ بہر حال جن میدانوں (fields) میں مسلمان مغربی فکر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ تین ہیں : سیاست، معیشت اور تشریع۔ غالباً یہی معاشرتی زندگی کے اہم ترین پہلو ہیں اور یہی ہر معاشرے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی تعلقات کی تنظیم خاص طور پر انہی سے وابستہ ہے۔ اس مغربی فکر کا مسلمانوں کی ذہنیت پر اتنا اثر ہوا کہ یہ صرف دین کے دنیا سے جدا ہونے کے علمبرداروں (secularists) تک محدود نہ رہا، بلکہ جن لوگوں نے اسلام کی طرف بھی پکارا یعنی ’’ اسلامی متجددین(islamic modernists)، انھوں نے بھی ان افکار کو اسلام کا لبادہ چڑھانے کی سر توڑ کوششیں کیں ! یہ غلط تاویلیں اس لیے کی گئیں تاکہ اسلام کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی فکر کو اساس بنا کر اسلام سے مطابقت پیدا کرنے کا رجحان شروع ہوا اور یہ اب تک استعمار کی حمایت و راہنمائی میں، گذشتہ ۱۵۰ سال سے جاری ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا ’’ نیا اسلام‘‘ قائم ہو، جو استعمار کے تسلط و مفاد کو برقرار رکھے اور اصل اسلام سے لوگوں کو دور رکھا ر جائے کیونکہ یہ ان کے مسلمانوں پر غلبے کو قبول نہیں کرتا اور امت سے ان کے اثر و رسوخ کو، خواہ وہ عسکری ہو یا سیاسی، فکری ہو یا اقتصادی، جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی لیے آج بھی مسلمانوں کے حکمران، جو کہ مغربی استعمار کے ایجنٹز ہیں، ’’جدید اسلام‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور عملی طور پر اس ’’جدیدیت‘‘(modernism) کی آڑ میں، تعلیمی نصاب کی ترامیم کے ذریعے، لوگوں کو اسلام سے مزید دور کرنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔
جہاں تک اس اسلوب کا تعلق ہے جو’’ متجددین ("modernists”)اسلام کی غلط تاویل کے لیے استعمال کیا، وہ یوں تھا کہ مغرب میں جو بھی فکر پروان چڑھتا، تو یہ لوگ فوراً اسلامی نصوص کی طرف رجوع کرتے اور ان سے مغربی افکار کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے، پھر یہ دعویٰ کرتے کہ اسلام میں پہلے سے وہ فکر موجود ہے۔ مثلاً جمہوریت (democracy) کو’’ شوریٰ‘‘، آزادیِ رائے کو’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ اور آزادیِ ملکیت کو اسلام میں انفرادی ملکیت کے حق کی آڑ میں اختیار کیا گیا۔ یہ غلط تاویلیں فروعات تک محدود نہ رہنے دی گئیں بلکہ وہ لوگ اصولوں میں بھی یہ زہر پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے John Stuart Mill اورJeremy Bentham کے منفعت پرستی(utilitarianism)کے فکر کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ اس مغربی فکر کے اسلامی فکر سے کوسوں دور ہونے کے باوجود، اسے ’’مصلحت ‘‘ اور ’’مقاصدِ شریعت‘‘ کے ذریعے، اسلام سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عمل کا پیمانہ’’ فائدہ و نقصان‘‘ مانا جانے لگا اور اسلام کا’’ حلال و حرام ‘‘ کا پیمانہ، مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا، یا زیادہ سے زیادہ ثانوی حیثیت کا بن کر رہ گیا۔ مغرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اسلام کی قانون سازی میں بھی انسانی عقل کو مرکزی کردار دینے کا رجحان شروع ہوا اور اس کا جواز بھی اسلامی نصوص میں ڈھونڈنے کی جدوجہد کی گئی۔ انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ نصوص کی لفظی پابندی ضروری نہیں بلکہ ان کی ’’روح ("spirit of the text”) کو دیکھنا چاہیے۔ نئے قاعدے بنائے گئے جیسے ’’زمان و مکان کے تغیّر سے احکام بھی بدل جاتے ہیں ‘‘، ’’جہاں مصلحت ہے وہاں اسلام ہے ‘‘ اور ’’ اسلام لچکدار("flexible”) ہے وغیرہ۔ یوں اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالا جانے لگا اور اس واہی عمل کو ’’اجتہاد ‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ اور مغربی فلسفے سے متاثر ہو کر اسلام کے تشریعی فکر یعنی علمِ اصولِ فقہ کی بگاڑ کو، حکومتی سطح پر فروغ دیا جانے لگا اور ایسے اقدامات کو آج بھی استعمار کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اصولِ فقہ پر یہ حملہ اتفاقی نہ تھا بلکہ اسے بڑے منصوبے کے تحت بجا لایا گیا۔ یہ اس لیے کیونکہ اصولِ فقہ وہ علم ہے جس کے ذریعے مجتہد، قرآن و سنت(اسلامی نصوص) سے زندگی کے نئے مسائل کے معالجات یعنی احکام، مستنبط کرتا ہے، جن کے مطابق مسلمان اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ لہذا اگر اسلام کی تشریعی اساس میں ہی مغربی فلسفے سے ہم آہنگ اصول گھڑ کر، اس میں بگاڑ پیدا کر دیا جائے، تو خود بخود تمام جزئیات پر اثر پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر مغربی افکار کو اصولِ فقہ میں ملا دیا جائے، تو مسائل کے حل بھی عین مغربی فلسفے کے مطابق نکلیں گے اور یوں ہر کفریہ فکر و قانون کو اسلام کا لبادہ پہنانا آسان ہو جائے گا۔ نیز اس لیے بھی تاکہ اس کے نتیجے میں آئندہ نسلیں مکمل مغربی ذہنیت کی پیدا ہوں۔ آج ہمارے ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ انہی غیر اسلامی اصولوں کی بنیاد پر آج کئی علماء و مشائخ، ہمارے حکمرانوں کی مدد سے، اسلام کی غلط تاویلوں اور فتووں کے ذریعے مغربی استعمار کے مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ خواہ وہ ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ("war on terror”) کی آڑ میں ہو، مسلمانوں کے خلاف کفار سے اتحاد کے جواز پیش کرنے کی شکل میں ہو، یا پھر ’’ملک کی معیشت کو پروان چڑھانے ‘‘ کی آڑ میں اس آزاد تجارت( Free Trade) کو جائز قرار دینے کی شکل میں ہو، جس کے ذریعے استعماری قوتیں ہمارے ممالک کی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں، انتہا پسندی کے خاتمے یا پھر ملک کے قومی مفاد(national interest) کی آڑ میں امت سے غداری کی شکل میں۔ چونکہ ان غیر اسلامی امور کو اسلامی اصولوں اور اصطلاحات سے تعبیر کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے، مثلاً’’ مصلحت‘‘ یا ’’حکمت ‘‘وغیرہ، اس لیے بعض مسلمان اس کا نشانہ بن کر، ان کی حمایت پر اتر آتے ہیں۔
امت تبھی ان چالوں سے محفوظ رہ سکتی جب وہ اسلامی اصولوں اور کفریہ اصولوں کے مابین فرق کو گہرائی سے سمجھے تاکہ یہ مغربی فکر کے اثر سے بچ سکے اور خالص وحیِ الٰہی کی بنیاد پر اپنی زندگی کے تمام معاملات کو استوار کر سکے۔ یہ امر اس کا مقتضی ہے کہ امت اسلام کی تشریعی اساس یعنی اصولِ فقہ سے واقف ہو اور اس کے اہم ترین قواعد کو اپنے اندر راسخ کرے۔ نیز امت کو موجودہ غیر اسلامی معاشرے سے ایک اسلامی معاشرے کی طرف منتقل کرنا، اس بات پر منحصر ہے کہ زندگی کے بارے میں اسلام کے اہم ترین افکار و پیمانوں کے بیج کو، کس حد تک بونے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ اس لیے تاکہ دوبارہ سے مسلمان زندگی کے واقعات کو خالص اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور امت صحیح نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو۔
اسی لیے اس اساس کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے جس کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ قائم ہو گا، تاکہ یہ امت کے لیے وہ طریقۂ کار(mechanism) ہو، جو اس بات کی ضمانت دے گا کہ آئندہ اسلامی ریاست میں معاشرتی تعلقات واقعی خالص وحیِ الٰہی پر قائم ہوں گے۔ نیز یہ اس لئے بھی تاکہ اصولِ فقہ کی اہمیت کا ادراک ہو سکے اور مسلمانوں میں دوبارہ اسلامی مآخذ کی طرف لوٹنے کی رغبت پیدا ہو۔ چنانچہ ویب سائٹ پر قسط وار مضامین کے ذریعے اصولِ فقہ کا ایک نمونہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ امت کو شریعتِ اسلام کی عالمیت کا ادراک ہو سکے، یعنی قطع نظر زمان و مکان، اسلام میں ہر مسئلے کا حل پیش کرنے کی اہلیت۔ البتہ یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام کا اپنا ایک منفرد(unique) تشریعی فکر ہے، جو دنیا کے دیگر فلسفوں سے بالکل مختلف ہے اور نہ ہی اسے ان سے کوئی مشابہت ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی ان سب سے جدا ہے یعنی لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔