بسم الله الرحمن الرحيم
اسلام کی اقتصادی پالیسی ہر فرد کی تمام بنیادی ضروریات پورا کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ مزید برآں جس اسلامی معاشرے میں وہ فرد رہتا ہے، اس کے اعتبار سے اس کی بعض حاجات کو پورا کرنے کی بھی ضمانت دیتی ہے اور جس کا اپنا ایک خاص انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ شریعت کے احکامات ہر فرد کو اس کی بنیادی ضروریات مثلاً کھانا پینا، مکان، لباس کو پورا پورا مہیا کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ اور یہ اس طرح سے ہوگا کہ جو فرد کام کرنے کے قابل ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اور ان لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے، جن کا نفقہ اس شخص پر فرض ہو۔ والد پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے۔ اگر کوئی فرد کام کرنے کے قابل نہیں تو اس کی ذمہ داری اس کے وارث پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا فرد موجود نہیں ہے جس پر اس شخص کا نفقہ فرض ہو، تو پھر یہ ذمہ داری بیت المال کی ہے۔ اسی طریقے پر اسلام نے انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت دی ہے۔
اقتصادی مسئلہ اسلام کی نظر میں:
اسلام کی نظر میں اقتصادی مسئلہ اموال اور منافع کی رعایا کے تمام افراد پر تقسیم ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقتصادی مسئلہ دولت کی تقسیم کا ہے، نہ کہ دولت پیدا کرنے کا، خواہ دولت کی پیداوار کتنی ہی ہو۔
مال کی ملکیت کی بنیاد:
بنیاد ی طور پر مال اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس کے بارے میں ذمہ دار بنایا ہے۔ اس ذمہ داری یا جانشینی کی وجہ سے انسان کو یک گونہ حقِ ملکیت حاصل ہو گیا۔ اور اللہ تعالیٰ ہی نے فرد کو اس مال پر قبضے کی اجازت دی ہے۔ یہ مخصوص اجازت ہے۔ اور اس مخصوص اجازت کی وجہ سے انسان بالفعل اس مال کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَاٰتُوْھُمْ مِّن مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتَاکُمْ﴾
(النور:33)
"اور ان کو اس مال میں سے دو، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے”۔
اللہ تعالیٰ نے مال کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿وَاَنْفِقُوْامِمَّاجَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ﴾
(الحدید:7)
"اور اس میں سے خرچ کرو ،جس میں اس نے تمہیں جانشین بنایا ہے”۔
پس اللہ تعالیٰ نے مال میں لوگوں کو اپنا نائب بنایا ہے۔
ملکیت کی اقسام:
ملکیت کی تین اقسام ہیں : انفرادی ملکیت ، ملکیتِ عامہ، ریاستی ملکیت۔
اول: انفرادی ملکیت:
یہ شارع (اللہ سبحانہ و تعالیٰ)کی جانب سے انسان کو عین (اصل)، یا اس کی منفعت، یا اس کے متبادل کو خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ اسلام نے فرد کے لیے انفرادی ملکیت کو ایک شرعی حق قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ اموالِ منقولہ مثلاً چوپائے ،نقدی ،گاڑیاں اور کپڑے وغیرہ اور اموالِ غیر منقولہ مثلاً زمین، گھر، فیکٹری وغیرہ کا مالک ہوسکتا ہے۔ شریعت نے فرد کو اپنی ملکیت میں تصرف کا حق بھی دیا ہے۔ البتہ شریعت نے ان اسباب کا تعین کیا ہے، جن سے کوئی فرد مال کا مالک ہوسکتا ہے، اس مال کو بڑھا سکتا ہے۔ اور اسی طرح اس کو خرچ کرنے کی بھی شریعت نے ایک حد مقرر کردی ہے۔
ملکیت کے اسباب:
شارع نے ان اسباب کا تعیّن کردیا ہے، جن سے انسان مال کا مالک بن سکتا ہے، یا مال کی نشو و نما کرسکتا ہے۔ لہٰذا اپنا یا کسی کا کام خود کرنے کو یا دوسروں کے ذریعے کروانے کو ملکیت کا سبب قرار دیا ہے۔ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے اور زمین کے اندر سے معدنیات نکالنے، ایجنٹ اور دلال بننے کو بھی ملکیت کا سبب قرار دیا ہے۔ اسی طرح مضاربہ اور مساقات (پانی دینا) کو بھی ملکیت کا سبب قرار دیا۔ مزید برآں شارع نے میراث، بقدرِ کفاف (زندگی کو برقرار رکھنے کی خاطر) مال لینے، ریاست کی جانب سے رعایا کو مال دینے، اور ان اموال کو، جو افراد بغیر کسی مشقت کے حاصل کرتے ہیں، جیسے ہبہ، ہدیہ، وصایا، عطیہ، دیت، مہر اور لقطہ (راستے میں ملی ہوئی چیز) وغیرہ کو بھی ملکیت کا سبب قرار دیا ہے۔ اسی طرح شارع نے زراعت، تجارت اور صنعت کو مال کی بڑھوتری کا سبب قرار دیا ہے۔ جس طرح شارع نے کسب کو اور مختلف طریقوں سے مال کے نشوونما کی کیفیت کا تعین کیا ہے، اسی طرح ان طریقوں کا بھی تعین کیا ہے کہ جنہیں ایک مسلمان اموال کو بڑھانے کے لیے اختیار نہیں کر سکتا، یا انہیں اپنے کسب کا وسیلہ نہیں بناسکتا۔ چنانچہ مندرجہ ذیل طریقوں سے مال کمانے اور اس کو بڑھانے سے منع کیا :
سرمایہ دارانہ حصہ دارکمپنیاں (شیئر ہولڈر کمپنیاں):
یہ شراکتی کمپنیاں اسلام میں حرام ہیں۔ اسلام ان کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ انعقاد اور "صحتِ بیع” کی ان تمام شرائط کو پورا نہیں کرتیں جو نصوص میں مذکور ہیں۔ ان کمپنیوں کے شیئرز میں عقد کے ارکان، یعنی ایجاب و قبول بھی نہیں پائے جاتے۔ یہ صرف ایک طرف سے پورے ہوتے ہیں، جو صرف ایک حصہ دار ہے۔ وہ اس طرح کہ کوئی شخص صرف کمپنی کی شرائط پر پورا اترے، تو وہ شریک بن جاتا ہے۔ اسی طرح صرف ایک حصہ کے خریدنے سے کوئی شخص کمپنی کا حصہ دار بن جاتا ہے۔ سرمایہ داروں کے نزدیک یہ صرف ارادہ ہے۔ اس کمپنی کے شیئرز میں دو عاقد (بائع و مشتری) نہیں ہوتے، بلکہ صرف ایک متصرف ہوتا ہے۔ اسی طرح اس میں ایجاب و قبول بھی نہیں ہوتا، بلکہ صرف قبول ہے۔ اور اس میں مال اور بدن نہیں ہوتا، بلکہ فقط مال ہوتا ہے۔ شریعت میں کمپنی کے لیے یہ شرط ہے کہ اس میں دو عاقدوں (بائع و مشتری) کی جانب سے ایجاب و قبول ہوتا ہے۔ جیسا کہ تجارت، کرایہ اور اس جیسے دوسرے عقود میں ہے، اور یہ شرکت بھی صرف دو بدنوں کے درمیان یا بدن اور مال کے درمیان ہوسکتی ہے۔ بدن کے بغیر مال میں شرکت جائز نہیں۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ شراکتی کمپنی کا عقد ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس میں عقد کے ارکان ہی نہیں پائے جاتے۔ لہٰذا یہ باطل اور حرام ہے۔ شرع کی مخالفت ہے، اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اس میں اللہ کے اَمر کی مخالفت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انعقاد کی شرائط کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان شرائط کو پورا نہ کرنے سے اللہ اور اس کے حکم کی مخالفت ہوتی ہے:
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَؤ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾
(النور:63)۔
"جو اس (محمدﷺ)کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں”
اسی طرح شارع نے سود، ذخیرہ اندوزی، جوا، ملاوٹ، دھوکا، غبن الفاحش، شراب کی خرید و فروخت، خنزیر کی تجارت یا مردار کے بیچنے اور خریدنے کو، صلیب کے بیچنے، کرسمس کی خوشی کے درخت، چوری اور جیب تراشی، لوٹ مار، اور رشوت یا خیانت کے ذریعے مال کمانے او ر بڑھانے سے منع کیا ہے۔
دوم: عام ملکیت:
ملکیت کی اقسام میں سے دوسری قسم” ملکیتِ عامہ” ہے۔ یہ اعیان (نقد اموال) ہیں، جنہیں شارع نے تمام مسلمانوں کی ملکیت میں دیا ہے، اور انہیں مسلمانوں کے درمیان مشترک قرار دیا ہے۔ اور ان سے نفع اٹھانے کو افراد کے لیے مباح قرار دیا ہے اور انہیں انفرادی ملکیت بنانے سے منع فرمایا ہے۔ بنیادی طور پر ان اعیان کی تین اقسام ہیں:
1) جماعت (معاشرے) کی عام روزمره ضروریاتِ زندگی، جن کے بغیر زندگی ناممکن ہے، مثلاً پانی، رسول اللہﷺنے فرمایا:
(اَلمُسْلِمُوْنَ شُرَکَاءُ فِیْ ثَلَاثٍ اَلْمَاءُ وَالْکِلَاءُ وَالنَّارُ) "تین چیزوں میں تمام مسلمان شریک ہیں:پانی ،چراگاہیں اورآگ" (احمد)
بات ان تین چیزوں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جو جماعت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ تمام آلات بھی اس میں شامل ہیں جو جماعت کی ضرورت ہیں۔ جیسے پانی نکالنے یا چھڑکنے کے آلات اور اس کو پہنچانے کے لیے پائپ، بجلی پیداکرنے کے آلات مثلاً پانی کے بہاؤ کے آلات، ستون اور تار وغیرہ۔
2) وہ اعیان، جو اپنی طبعی اور تکوینی خصوصیت کی وجہ سے انفرادی قبضہ میں نہیں ہوسکتے۔ مثلاً سمندر، دریا، عام میدان، مساجد، عام راستے وغیرہ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(مِنِّی مُنَاخٌ مَن سَبَقَ) "جو پہل کرے ،ہماری طرف سے راہ ہموار ہے۔" (یعنی جوپہلے آئے وہ پہلے پائے)۔ (ترمذی،ابن ماجہ، حاکم)
ان کے علاوہ کئی اور چیزیں، مثلاً ریل گاڑی، بجلی کے کھمبے، پانی کی پائپ لائنزاور پانی کے وہ نلکے، جو عام راستوں میں لگے ہوئے ہیں، بھی عام ملکیت میں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ عام راستوں میں لگے ہوئے ہیں اور عام راستے عام ملکیت ہیں۔ کوئی فرد ان کو اپنے لیے خاص نہیں کرسکتا اور نہ اس چیز سے لوگوں کو منع کرسکتا ہے، جو عام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا حِمَی اِلَّا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ) "اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کے لیے حمیٰ بنانا نہیں ہے"۔ (بخاری)
چنانچہ ریاست کے علاوہ کوئی بھی ان چیزوں سے منع نہیں کرسکتا۔
3) وہ بے شمارمعدنیات، جو منقطع نہ ہوتی ہوں۔
یہ ایسی بہت سی معدنیات ہیں ،جو بہت کثرت سے ہوتی ہیں، یہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ کسی خاص فرد یا کمپنی کے لیے ان کی ملکیت جائز نہیں۔ لہٰذا انہیں نکالنے، بنانے اور ذخیرہ کرنے یا تقسیم کرنے کے لیے کسی خاص فرد یا کمپنی کی ملکیت میں دینا جائز نہیں۔ بلکہ ان کو تمام مسلمانوں کی ملکیت میں رہنا ضروری ہے۔ اس میں تمام مسلمان شریک ہوں گے۔ اور مملکت انہیں خود نکالے گی، یا کسی اور ذریعے سے، یا مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے انہیں بیچ کر ان کی آمدنی بیت المال میں رکھے گی۔ یہ معدنی ذخائر چاہے ظاہری ہوں یا زیرِ زمین، ان میں کوئی فرق نہیں۔ مثلاً نمک، سرمہ وغیرہ (جو ظاہری معدنیات ہیں)۔ اسی طرح زیرِ زمین معدنی ذخائر، جنہیں بڑی مشقت سے نکالا جاتا ہے، مثلاً سونا، چاندی، لوہا، پیتل، تانبا، یورینیم، پٹرول وغیرہ۔ اس کی دلیل ابیض بن حمال کی حدیث ہے:
( أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ فَاسْـتَقْطَعَهُ فَأَقْطَعَهُ الْمِلْحَ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَدْرِي مَا أَقْطَعْتَهُ إِنَّمَا أَقْطَعْتَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ قَالَ فَرَجَعَ فِيهِ) "(ابیض بن حمال)نے رسول اللہ ﷺسے مارب میں نمک توڑ لینے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دی۔ جب وہ واپس ہوئے تو رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے ان کے لیے کیا توڑا؟ آپؐ نے اس کے لیے بے شمار پانی (معدنیات) توڑا۔ آپؐ نے فرمایا: "اس سے واپس لے لو‘‘ ۔(ابنِ حبان)
جہاں تک ان چھوٹی اور مقدار میں محدود معدنیات کا تعلق ہے، جیسے سونے اور چاندی کا عرق، توان کا کوئی خاص فرد بھی مالک ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے بلال بن الحارث المزنی کو حجاز میں الفرع کی طرف "معادن القبلیۃ” کا مالک بنایا۔ بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اسے حاصل کرنے کا سوال کیا تھا اور آپ ؐنے انہیں اجازت دی، اور اس کا مالک بھی بنایا۔
عام ملکیت سے نفع اٹھانے کی کیفیت:
چونکہ ملکیتِ عامہ تمام مسلمانوں کی ملکیت اور ان کے درمیان مشترک ہے، لہٰذا ہر فرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر اس ملکیت کے اعیان (اموال) ایسے ہوں، جن سے انسان خود آسانی سے نفع اٹھا سکتا ہے، تو اٹھائے۔ مثلاً پانی، چارہ، آگ، عام راستے، دریا اور سمندر وغیرہ۔ اور اگر ان سے خود آسانی سے فائدہ اٹھانا ایک فرد کے لیے سہل نہ ہو، مثلاً پٹرول اور دوسری معدنیات وغیرہ، تو مملکت انہیں زمین سے نکالے گی اور ان کی آمدنی بیت المال میں رکھے گی۔ خلیفہ ان میں سے حسبِ موقع مسلمانوں کے فائدے کے لیے خرچ کرے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کی آمدن کو مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کرے:
- اموال کو زمین سے نکالنے کے محکمے پر خرچ کرے۔ یعنی اس کی تعمیرات، متعلقہ افسروں، مشیروں، ماہرین و آلات اور کارخانوں وغیرہ پر۔
- ان مسلمانوں پر خرچ کرے، جو ان ملکیاتِ عامہ کے حق دار ہیں۔ یعنی خلیفہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردے ، جیسے پٹرول، پانی، بجلی وغیرہ مفت دے گا، یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مسلمانوں کے مفادات اور موقع و محل کے اعتبار سے ان کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے گا۔
- جہاد اور اس کے لیے اسلحہ اور فوج کی تیاری پر خرچ کرنے کے لیے اس مال کو حمیٰ بنائے گا۔ اور اسی طرح بیت المال کے ان مصارف پر بھی خرچ کرے گاـ، جن پر خرچ کرنا مال ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں بہرحال بیت المال پر واجب ہے۔ بیت المال میں مال نہ ہونے کی صورت میں ان مصارف پر خرچ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
سوم: ریاستی ملکیت:
ملکیت کی تیسری قسم "مملکت کی ملکیت ” ہے۔ اس میں ہر وہ ‘عین’ (مال) شامل ہے، جو زمین یا مکان کی صورت میں عام مسلمانوں سے تو متعلق ہے مگر ملکیت عامہ میں داخل نہیں۔ مملکت کی ملکیت وہ اموال ہیں، جو انفرادی ملکیت کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، مثلاً زمین، مکان اور منقولہ اشیاء وغیرہ لیکن جب یہ عام مسلمانوں کے حقوق سے متعلق ہوگئے، تو ان کی تدبیر، دیکھ بھال اور تصرف خلیفہ کی ذمہ داری ہے۔ یعنی کہ ریاست کیونکہ وہی ان چیزوں کو بہتر طریقے سے صرف کرسکتی ہے جو عام مسلمانوں سے متعلقہ ہیں، مثلاً صحرا، پہاڑ، بندرگاہیں، ایسی بنجر زمین، جو کسی خاص شخص کی ملکیت نہ ہو، عمارات، پانی پینے کی جگہیں (کنوئیں وغیرہ)۔ اسی طرح وہ اموال، جنہیں ریاست خرید لے یا تعمیر کرے یا جنگ میں دشمن سے چھین لے، مثلاً دفاتر کی عمارات۔ نیز مدارس، ہسپتال وغیرہ۔ مملکت اْن املاک کی مالک بھی ہوسکتی ہے جن کے مالک افراد ہوسکتے ہیں، مثلاً زمین مکان وغیرہ۔ پھر خلیفہ ان کو افراد کی ملکیت میں بھی دے سکتا ہے، چاہے یہ منفعت کے اعتبار سے ہو یا اصل (عین)کے اعتبار سے، یا پھر دونوں اعتبار سے۔ یعنی منفعت کا اصل یا بنجر زمین انہیں دے دے، تاکہ وہ اس کو آباد کریں اور مالک بن جائیں۔ اور اس کا ایسا تصرف کریں جو مسلمانوں کے مفاد میں ہو۔
زمینیں:
زمینوں کا رقبہ اور منفعت دو چیزیں ہیں۔ اس کا رقبہ اس کی اصل ہے اور منفعت سے مراد زراعت وغیرہ میں اس کا استعمال ہے۔ اسلام نے اس کے اصل اور منفعت دونوں کی ملکیت کو مباح کردیا۔ لیکن دونوں کے لیے مخصوص احکام وضع کیے ہیں۔
زمینوں کی اقسام:
زمینوں کی دوا قسام ہیں: (۱)عشری زمین (۲)خراجی زمین
اول: عشری زمین:
یہ وہ زمین ہے جس کے رہنے والے وہاں رہتے ہوئے مسلمان ہوئے۔ جیسے انڈونیشیا اور جزیرہ نما عرب کی زمین، اور وہ بنجر زمین، جسے انسان خود آباد کرے۔
عشری زمین کے اصل اور نفع دونوں کا مالک بنا جاسکتا ہے اور اس میں زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ ہے۔ اگر زمین بارانی ہو تو زکوٰۃ کے بجائے عشر ہے۔ اگرزمین کو آلات کی مدد سے سیراب کیا جائے تو اس میں نصف عشر ہے۔
دوم: خراجی زمین :
یہ وہ زمین ہے جو جہاد یا صلح کے ذریعے فتح کی گئی ہو۔ عرب میں اس کی مثال عراق، شام، مصر اور دوسرے ممالک ہیں، جو بزورِ شمشیر فتح کیے گئے ہیں۔ خراجی زمین کی اصل (عینِ زمین) مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ مملکت اس ملکیت میں مسلمانوں کی نائب ہے۔ افراد کے لیے اس کی منفعت کی ملکیت بھی ایک جائز امر ہے۔ اور خراجی زمین پر خراج لینا فرض ہے، اور اس کی مقدار وہ ہوگی جو مملکت اس پر مقرر کرے۔ اسی طرح خراج نکالنے کے بعد اگر اس کی پیداوار نصاب کو پہنچے تو اس پر زکوٰۃ بھی لی جائے گی۔ چنانچہ ہر فرد کو عشری زمین سے نفع اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ان معنوں میں کہ وہ اسے بیچ سکتا ہے، اسے میراث اور ہبہ میں لے دے سکتا ہے۔ اسی طرح فرد کو خراجی زمین سے بھی نفع اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ یعنی وہ اسے بیچ یا خرید سکتا ہے، اور دوسرے اموال کی طرح میراث کے ذریعے اس کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔
کارخانے:
کارخانوں کا بھی کسی فرد کی ملکیت میں ہونا جائز ہے۔ مثلاً گاڑیوں کے کارخانے، فرنیچر وغیرہ کے کارخانے یا ٹیلرنگ ہاؤس یا کھیلوں کے سامان وغیرہ کے کارخانے، جن کے افراد مالک ہوتے ہیں۔ اسی طرح مملکت بھی مختلف کارخانوں کی مالک ہوسکتی ہے، مثلاً اسلحہ ساز فیکٹریاں یا تیل نکالنے کے کارخانے یا معدنیات نکالنے کے کارخانے وغیرہ۔ علاوہ ازیں کارخانے اور فیکٹریاں عام ملکیت میں بھی ہوسکتے ہیں، اگر وہ اشیائے عامہ پیدا کرر ہے ہوں، مثلاً لوہا، پیتل، سونا اور چاندی کے کارخانے۔ اسی طرح عام ملکیت کے اموال نکالنے کے کارخانے، مثلاً پٹرول وغیرہ۔ ان کارخانوں کی ملکیت ان کی پیداوار کی ملکیت کے تابع ہوگی۔ کیونکہ قاعدہ ہے: اِنَّ الْمَصْنَعَ یَأْ خُذُ حُکْمَ مَایُنْتِجُ "کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس کی پیداوار کا ہے۔”
بیت المال:
بیت المال کی آمدنی:
- انفال، غنائم، مالِ فے، خمس
- خراج
- جزیہ
- عام ملکیت کی آمدنی کی مختلف ا قسام۔ انہیں خاص مد میں رکھا جائے گا
- زمین یا مکانات کی ملکیت کے ذ ریعے مملکت کی آمدنی
- شہروں کی حدود میں لیا جانے والا عشر
- معدن، خمس اور رکاز (مدفون خزانہ)
- ٹیکسز (الضرائب)
- زکوٰۃ کے اموال، ان کو خاص مدات میں رکھا جائے گا
نقدی کا سونا یا چاندی ہونا واجب ہے:
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ صرف سونا چاندی کو نقدی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ وہ ہر جگہ اسے ہی استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بازنطینی دینار اور کسروی درہم بھی اپنے پاس نقد کی صورت میں رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر عبد الملک بن مروان کے زمانے تک خاص قسم کے نقدی سکے نہیں بنائے گئے۔ عبد الملک نے اپنے عہد میں ایک خاص قسم کا سکہ، اسلامی نقدی بنائی اور اسے ایک خاص طرز اور معیّن شکل میں بنوایا۔ اس میں خالص اسلامی نقش و نگار کیا اور اسے صرف سونے چاندی کی بنیاد ہی پر رکھا۔ یعنی شرعی دینار اور درہم کے وزن کے برابر۔

سونے اور چاند ی کے سونا اور چاندی ہونے کے اعتبار سے، اور نقدی اور سکے ہونے کے اعتبار سے، اسی طرح اشیاء کی قیمت اور محنت کی اجرت ہونے کے اعتبار سے، اسلام کے بہت سے شرعی احکامات ہیں۔ چنانچہ ان کا جمع کرنا حرام ہے۔ ان سے متعلقہ ایسے احکامات بھی ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان میں زکوٰۃ ان کے نقد ی رہنے کے اعتبار سے ہے۔ اسی طرح اشیاء کی قیمتیں ہونے کے اعتبار سے، سونے کے دیناروں اور چاندی کے درہم سے ان اشیاء کے لیے ایک نصاب متعیّن کیا گیا ہے۔ اور اگر دیت فرض ہو تو یہ دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے سونا اور چاندی سے ایک متعین مقدار مقرر کی گئی ہے، جو سونے میں ہزار دینار اور چاندی میں بارہ ہزار درہم ہیں۔ جب چوری میں ہاتھ کاٹنے کو فرض قرار دیا تو اس میں اس مقدار کا تعین کیا، جس پر ہاتھ کاٹا جائے گا، یعنی سونے میں ربع دینار (دینار کا چوتھائی حصہ) اور چاندی میں تین درہم۔ اور جب شرع نے نقد معاملات میں تصرف کے احکامات مقرر کیے، تو سونا اور چاندی ہی کو اس میں معتبر ٹھہرایا۔
لہٰذامعلوم ہوا کہ اسلام نے اِن تمام شرعی احکامات کو سونے اور چاندی کے ساتھ بحیثیت نقدی اور ’’سکہ رائج الوقت‘‘کے مربوط کیا ہے۔ اور انہی کو چیزوں کی قیمت قرار دیا ہے۔ اور اس کو خود رسول اللہ ﷺنے متعیّن کیا ہے کہ سونا اور چاندی ہی صرف نقدی کے پیمانے ہیں، جن سے سامان کی قیمت لگائی جاتی ہے، اور محنت کی مزدوری طے کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ اسلام نے بطور نقدی صرف سونا اور چاندی کا اعتبار کیا ہے۔ کیونکہ نقدی کے جتنے احکامات ہیں وہ سونے اور چاندی سے مربوط ہیں۔
اس بناء پر مسلمانوں پرلازم ہے کہ ان کی نقدی سونے اور چاندی کی شکل میں ہو اور خلیفہ کو بھی چاہیے کہ وہ نقدی میں صرف سونا اور چاندی کا اعتبار کرے۔ اور سونا اور چاندی کے اس قاعدے پر چلے، جو رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں تھا۔ اور خلافت کی حکومت پر یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ایک متعین شکل اور خاص طرز پر دینار اور درہم کے سکے بنائے۔ اور دینار کا وزن شرعی دینار کے وزن کے برابر ہو، یعنی 4.25 گرام ایک دینار کے لیے، جو مثقال کا وزن ہے۔ اور چاندی کے درہم کا وزن شرعی درہم کے وزن کے برابر ہوگا، جسے "وزنِ بیع” بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی دس درہم سات مثقال وزن کے برابر ہوں گے اور 2.975 گرام وزن کے برابر درہم کا سکہ بنایا جائے گا۔
یہ سونے اور چاندی کا قاعدہ ہی ہے، جس کے ذریعے نقدی کی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے، اور افراطِ زر کی اِس عالمی شدت میں، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، نقدی کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ قیمتوں میں استحکام اور عالمی تجارت کو ترقی دی جاسکتی ہے۔ سونے اور چاندی کے قاعدے کے ذریعے ہی سے بین الاقوامی کرنسی پر امریکہ کے تسلط کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی تجارت اور عالمی اقتصاد پر امریکی قبضے کو اس قاعدے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ پس سونے کے قاعدے کی طرف رجوع ہی سے دنیا میں ڈالر کا اثر و رسوخ اور اس کی قیمت زائل ہوگی۔